سپریم جوڈیشل کونسل نے عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس سردار طارق مسعود کے خلاف شکایت متفقہ طور پر مسترد کر دی جبکہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف شکایت پر کارروائی مکمل نہیں ہو سکی اور مزید سماعت کل دن 3 بجے تک ملتوی کر دی گئی ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت ہوا جس میں عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس سردار طارق کے خلاف شکایت کا جائزہ لیا گیا۔
جسٹس سردار طارق کے خلاف درخواست دائر کرنے کا مقصد ان کو بدنام کرنا تھا، اعلامیہ سپریم جوڈیشل کونسل
سپریم جوڈیشل کونسل کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ جسٹس سردار طارق مسعود کے خلاف تضحیک آمیز شکایت دائر کرنے کا مقصد ان کو بدنام کرنا تھا، ان کے خلاف شکایت مسترد کی جاتی ہے۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ جسٹس سردار طارق مسعود کے خلاف تضحیک آمیز شکایت دائر کرنے پر آمنہ ملک کے خلاف کارروائی کا فیصلہ بعد میں کریں گے۔
مزید پڑھیں
اعلامیہ کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل نے ایڈووکیٹ اظہر صدیق کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ 7 روز میں وضاحت کریں کہ جسٹس سردار طارق کے خلاف شکایت کو سوشل میڈیا پر کیوں جاری کیا۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اگر شکایت کو سوشل میڈیا سائٹ ’ایکس‘ پر جاری کیا گیا ہے تو ایڈووکیٹ اظہر صدیق کے خلاف کارروائی کیوں نہ کی جائے۔
جسٹس سردار طارق کے خلاف درخواست گزار آمنہ ملک سوالوں کے درست جوابات نہ دے سکیں
جسٹس سردار طارق مسعود کے خلاف درخواست گزار آمنہ ملک سوالات کے درست جواب نہیں دے سکیں اور انہوں نے تسلیم کیا کہ ان کی معلومات درست نہیں۔
عوام میں بدنام کیا گیا، آمنہ ملک اور اظہر صدیق کے خلاف کارروائی کی جائے، جسٹس سردار طارق
جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ چونکہ ان کو عوام میں بدنام کیا گیا ہے اس لیے عوام کے سامنے ہی ان کو الزامات سے بری کیا جائے۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ آمنہ ملک کے خلاف ایکشن لیا جائے اور ایڈووکیٹ اظہر صدیق کے خلاف بھی کارروائی کی جائے جنہوں نے آمنہ ملک کی درخواست ٹوئٹ کی۔
سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان نے کہاکہ جسٹس سردار طارق مسعود کے خلاف درخواست میں کوئی جان نہیں اور ہماری یہ رائے ہے کہ درخواست کا مقصد ان کو بدنام کرنا تھا۔
جسٹس مظاہر نقوی کی طرف سے خواجہ حارث سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے پیش
دوسری جانب چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی جانب سے خواجہ حارث پیش ہوئے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق وکیل خواجہ حارث نے جسٹس مظاہر نقوی کا خط کونسل میں پیش کیا۔ خط میں سپریم کورٹ میں دائر آئینی درخواست کے فیصلے تک کونسل کی کارروائی موخر کرنے کی استدعا کی گئی۔
سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی میں 2 بار وقفہ کیا گیا مگر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف شکایت پر کوئی فیصلہ نا ہو سکا اور مزید سماعت کل دن 3 بجے تک ملتوی کر دی گئی ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل نے عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس مظاہر علی اکبرنقوی کے خلاف ریفرنس دائر کرنے والے افراد کو بھی طلب کر رکھا تھا اور جسٹس نقوی کو بھی جواب کا موقع دیا گیا، ان کی طرف سے خواجہ حارث نے موقف پیش کیا۔ اجلاس میں سپریم کورٹ کے سینیئر پیونی جج جسٹس سردار طارق مسعود کے خلاف بھی شکایت کنندہ کو بمعہ دستاویزی ثبوتوں کے طلب کیا گیا تھا اور سماعت کے دوران ان کے خلاف شکایت متفقہ طور پر مسترد کر دی گئی ہے۔
کونسل نےجسٹس مظاہر نقوی کے نام پر لاہور میں 2 جائیدادوں کا مکمل ریکارڈ طلب کر رکھا ہے، گلبرگ تھری لاہور میں پلاٹ نمبر 144 بلاک ایف ون کا مکمل ریکارڈ بھی طلب کیا گیا ہے، اس کے علاوہ لاہور کینٹ میں پلاٹ نمبر 100 سینٹ جانز پارک کا بھی مکمل ریکارڈ طلب کیا گیا ہے، کونسل نے سینیئر افسران کو ریکارڈ سمیت پیش ہونے کا حکم جاری کر رکھا ہے، اجلاس میں جسٹس مظاہر نقوی کے اعتراضات پر بھی غور کیا جائے گا۔
جسٹس مظاہر نقوی کی سپریم کورٹ میں پٹیشن
جس جائیداد کو لے کر سپریم جوڈیشل کونسل میں میرے خلاف شکایت بھیجی گئی وہ جائیداد ڈیکلیئرڈ ہے اور اس کے لیے نا تو مجھے ٹیکس اور نا ہی رجسٹریشن اتھارٹیز کی جانب سے کوئی نوٹس جاری کیا گیا۔ جسٹس مظاہر نقوی نے اپنی درخواست میں سوال اٹھایا ہے کہ ایک ڈیکلیئرڈ اثاثے کے خلاف کوئی ایسا شخص جس کا اس جائیداد کی خرید و فروخت سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں وہ کیسے شکایت کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ میرے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں چلنے والی کارروائی بدنیتی پر مبنی ہے اور میڈیا میں میری کردار کشی عدلیہ کی آزادی پر براہِ راست حملہ ہے۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے احتساب کے لیے قائم ادارے سپریم جوڈیشل کونسل میں اپنے خلاف شروع ہونے والی کارروائی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے، جس میں ملک کے نامور وکلا سردار لطیف کھوسہ، خواجہ حارث احمد، مخدوم علی خان، سید علی ظفر اور سعد ممتاز ہاشمی ان کے مقدمے کی نمائندگی کریں گے۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل میں اپنے خلاف ہونے والی کارروائی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے اپنی درخواست میں موقف اپنایا ہے کہ ان کے خلاف 16 فروری 2023 سے بدنیتی پر مبنی مہم جاری ہے اور ان کا میڈیا ٹرائل ہو رہا ہے جو کہ عدلیہ کی آزادی پر براہِ راست حملہ ہے۔
جسٹس نقوی نے لکھا ہے کہ جس انداز میں انہیں اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا گیا وہ نا صرف شفاف ٹرائل بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے بھی منافی ہے، جسٹس نقوی نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ ان کو جاری ہوئے اظہار وجوہ کے نوٹسز کے بارے میں ان کی مرضی کے بغیر پریس ریلیز جاری کی گئی جس سے ان کا میڈیا ٹرائل شروع ہو گیا اور عوام میں ان کے خلاف منفی تاثر پھیلایا گیا۔
جسٹس نقوی کا اظہار وجوہ کے نوٹسز پر ابتدائی جواب
سپریم جوڈیشل کونسل نے 27 اکتوبر کو جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو ان سے متعلق شکایات کے حوالے سے اظہار وجوہ کے نوٹسز جاری کیے تھے، تاہم جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے 10 نومبر کو ابتدائی طور پر سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے موقف اپنایا تھا کہ آئینی اعتبار سے کسی جج کو نوٹسز جاری کرنے کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کے اراکین کا متفقہ فیصلہ ضروری ہوتا ہے جبکہ میرے خلاف شکایات پر کونسل کے 3 اراکین نے شوکاز نوٹسز جاری کرنے کی حمایت کی۔
انہوں نے کہا ہے کہ دوسرے جج جسٹس سردار طارق مسعود کے خلاف شکایات پر درخواست گزار آمنہ ملک کو نا صرف نوٹسز جاری کیے گئے بلکہ ان سے تحریری مواد بھی طلب کیا گیا جو میرے معاملے میں ایسا نہیں کیا گیا اور نا ہی وہ مواد مجھے مہیا کیا گیا جس کی بنا پر میں کوئی جواب تحریر کر سکوں اور میرے خلاف شکایات کے بارے میں بتایا نہیں گیا۔
اس کے علاوہ جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل پر بھی اعتراضات اٹھائے تھے کہ اس کے چیئرمین چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ان کی بطور جج سپریم کورٹ نامزدگی کی مخالفت کی تھی، ان کے جنرل مشرف سنگین غداری مقدمے کے فیصلے کے خلاف تحریری نوٹ لکھا تھا۔
جسٹس مظاہر نقوی کے مطابق جسٹس فائز عیسیٰ آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے سربراہ بھی رہے جس میں ان (جسٹس نقوی) سے متعلق ایک آڈیو بھی زیر تفتیش تھی اور اسی حوالے سے انہوں نے بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس نعیم اختر افغان کی سپریم جوڈیشل کونسل میں شمولیت پر اعتراض اٹھایا تھا کیونکہ وہ بھی آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے رکن تھے۔