الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی ملک بھر میں سیاسی گہما گہمی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھنے لگی ہے، بڑے سیاسی کھلاڑی اس وقت چھوٹے صوبوں میں آئندہ انتخابات کے لیے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے جوڑ توڑ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ہر بار کی طرح بلوچستان ایک مرتبہ پھر ملک میں ہونے والی بڑی سیاسی تبدیلیوں کا محور بنا ہوا ہے، حال ہی میں پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف کا دورہ کوئٹہ سیاسی حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل اس لیے رہا کہ ان کی کوئٹہ میں موجودگی کے دوران بلوچستان کے 30 سے زیادہ اہم قبائلی و سیاسی رہنماؤں نے مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی۔
مزید پڑھیں
اس کے علاوہ نواز شریف کے دورے کے دوران جمعیت علما اسلام، نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے پاکستان مسلم لیگ ن سے آئندہ انتخابات میں سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے فارمولے پر سیاسی اتحاد کی بھی حامی بھری ہے۔
ایسے میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس کے موقع پر کوئٹہ کا دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہو گا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت کے مطابق بلاول بھٹو زرداری کے ہمراہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیئر قیادت جس میں یوسف رضا گیلانی، شیری رحمان، فرحت اللہ بابر، فیصل کریم کنڈی سمیت دیگر صوبوں کے صوبائی صدور بھی اس دورے کا حصہ ہوں گے۔ بلاول بھٹو کا دورہ کوئٹہ 2 روز پر مشتمل ہو گا۔
دورے کے موقع پر جہاں 30 نومبر کو پاکستان پیپلزپارٹی کے یوم تاسیس کے موقع پر جلسہ عام منعقد ہوگا وہیں پارٹی میٹنگنز سمیت کئی اہم ملاقاتیں بھی متوقع ہیں۔
ن لیگ کی طرح پیپلزپارٹی بھی سیاسی شخصیات کو شامل کرنا چاہتی ہے، کفایت علی
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی کفایت علی نے وی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ نوازشریف کے دورے کے بعد بلاول بھٹو زرداری کا دورہ کوئٹہ اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ تبدیلی کی لہر کا آغاز ایک بار پھر بلوچستان سے ہی ہو گا اور جس طرح سے پاکستان مسلم لیگ ن نے ایک بڑے سیاسی بیڑے کو اپنے قافلے میں شامل کیا ہے ٹھیک اسی طرح پیپلز پارٹی کی بھی یہ خواہش ہو گی کہ بلاول بھٹو زرداری کے دورہ کوئٹہ پر ایسی ہی ایک کھیپ پیپلز پارٹی کے کارواں میں بھی شامل ہو جائے جس کے لیے کئی سیاسی رہنماؤں سے بیک ڈور رابطے اور ملاقاتیں بھی کی جارہی ہیں۔
کفایت علی نے کہاکہ ایک اہم چیز یہ بھی ہے کہ ماضی میں بلاول بھٹوزرداری اور آصف علی زرداری نے ذاتی تعلقات اور دوستیوں کی بنیاد پر بلوچستان میں اپنا سیاسی اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی ہے جس کی شکل میں رواں برس صوبے کی اہم قبائلی و سیاسی شخصیات جن میں چیف آف جھالاوان نواب ثنااللہ زہری، جنرل (ر)عبدالقادر بلوچ، ظہور بلیدی، میر نعمت زہری، عارف محمد حسنی، نوابزادہ جمال رئیسانی، میر رؤف رند، اکبر آسکانی سمیت کئی سیاسی رہنما پیپلز پارٹی کے گھونسلوں میں کوچ کر گئے تاہم بلاول بھٹو زرداری کا دورہ کوئٹہ صوبے میں نئی سیاسی صف بندیاں کرنے کی طرف پیش قدمی ہو گی۔
بلوچستان کے سیاسی رہنماؤں کا جھکاؤ مرکزی جماعتوں کی طرف ہے، سیاسی تجزیہ نگار
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق بلوچستان میں گزشتہ انتخابات کے بعد سیاسی رہنماؤں کا جھکاؤ قوم پرست اور مذہبی جماعتوں کے بجائے مرکزی سطح کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے زیادہ رہا اور یہی وجہ تھی کہ پاکستان مسلم لیگ ن نے بھی پیپلز پارٹی سے قبل ہی بلوچستان کا معرکہ سر کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ تمام سیاسی رہنما جو انتخابات سے قبل کسی ملکی سطح کی سیاسی جماعت کا حصہ بننا چاہتے تھے وہ ان کی طرح مائل ہو جائیں۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ آئندہ انتخابات میں اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ جو سیاسی جماعت جمعیت علما اسلام کے ساتھ مضبوط اتحاد قائم کرے گی وہی جماعت صوبے میں حکومت بنانے کی واضح پوزیشن میں نظر آئے گی۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کی پنجہ آزمائی میں فاتح کون قرار پائے گا۔