اسرائیلی کابینہ نے ایک عارضی جنگ بندی معاہدے پر اتفاق کیا ہے جس کے تحت غزہ میں 7 اکتوبر کو حماس کے مسلح گروپ کے جنوبی اسرائیل پر حملے کے بعد سے یرغمال بنائے گئے تقریباً 50 افراد کو رہا کیا جا سکے گا۔
الجزیرہ کے مطابق یہ معاہدہ قطر کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے پر بات چیت کے بعد طے پایا ہے جو بدھ کی صبح کے اوائل تک جاری رہی، اسرائیلی میڈیا نے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی حکومت کے وزراء کے درمیان جنگ بندی کے معاملہ پر تند و تیز جملوں کا تبادلہ بھی رپورٹ کیا ہے۔
آخر میں اسرائیلی کابینہ کے 38 ارکان میں سے صرف 3 وزراء نے جنگ بندی کیخلاف ووٹ دیا، جن میں قومی سلامتی کے وزیر اتمار بین گویر اور ان کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت کے دو دیگر ارکان شامل تھے۔
اسرائیلی وزیر اعظم آفس کے مطابق اس معاہدے کے تحت حماس کو کم از کم 50 خواتین اور بچوں کو لڑائی کے 4 روزہ وقفے کے دوران رہا کرنا ہوگا، تاہم اس ضمن میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا ذکر کیے بغیر بتایا گیا ہے کہ ہر اضافی 10 یرغمالیوں کی رہائی کے لیے عارضی جنگ بندی کے وقفے میں ایک دن کی توسیع کی جائے گی۔
وزیر اعظم آفس کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی حکومت تمام مغویوں کی وطن واپسی کے لیے پرعزم ہے، آج رات اس مقصد کے حصول کے لیے پہلے مرحلے کے طور پر مجوزہ معاہدے کی منظوری دی گئی ہے۔
غزہ پر کنٹرول رکھنے والی فلسطینی تنظیم حماس نے بھی اپنے ایک بیان میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس وقت علاقے میں قید 50 اسرائیلی خواتین اور بچوں کو رہا کیا جائے گا جس کے بدلے میں اسرائیل 150 فلسطینی خواتین اور بچوں کو اسرائیلی جیلوں سے رہا کرے گا۔
حماس کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل غزہ میں تمام فوجی کارروائیاں بھی روک دے گا اور انسانی، طبی اور ایندھن کی امداد لے جانے والے سینکڑوں ٹرکوں کو علاقے میں جانے کی اجازت دی جائے گی۔
یہ معاہدہ پہلی جنگ بندی ہے جس میں اسرائیل نے غزہ کے وسیع علاقے کو مسمار کر دیا ہے، جو کہ تقریباً 23 لاکھ افراد کا مسکن تھا۔ فلسطینی حکام کے مطابق کم از کم 14 ہزار ایک سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جب کہ اقوام متحدہ کا تخمینہ ہے کہ تقریباً 17 لاکھ افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔ حماس نے اسرائیل پر اپنے حملے میں کم از کم 1200 افراد کو ہلاک کیا ہے۔
قطر، امریکہ، اسرائیل اور حماس کے حکام کئی دنوں سے ایک ناگزیر معاہدے کی تکمیل کی جانب اشارہ دے رہے تھے، قطر کی جانب سے اس جنگ بندی کے باضابطہ اعلان کا امکان ہے جس کے 24 گھنٹے بعد یرغمالیوں کی رہائی کا آغاز کیا جائے گا۔
معاہدے پر بات چیت کے لیے کابینہ اجلاس سے قبل نیتن یاہو نے واضح کیا تھا کہ اسرائیل کا وسیع مشن تبدیل نہیں ہوا ہے، انہوں نے ایک ریکارڈ شدہ پیغام میں کہا تھا کہ ہم حالت جنگ میں ہیں اور جب تک ہم اپنے تمام اہداف حاصل نہیں کر لیتے، جنگ جاری رکھیں گے۔
مزید پڑھیں
’حماس کو تباہ کرنے کے لیے، ہمارے تمام یرغمالیوں کو واپس کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ غزہ میں کوئی بھی ادارہ اسرائیل کو خطرے سے دوچار نہ کرسکے۔‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو جنگ بندی کے اس عارضی وقفے کو استعمال کرتے ہوئے جنگ کے خاتمے کی کوشش کرنی چاہیے۔
آسٹریلیا میں مقیم آزاد صحافی اینٹونی لوونسٹائن کے مطابق آنے والے دنوں میں مزید امداد آئے گی، مزید ایندھن، امید ہے کہ مزید طبی سامان بھی اور شدید زخمیوں کو نکالا جا سکے گا، لیکن اس کے علاوہ متوقع وقفے کے دوران، اسرائیل پر دوبارہ جنگ شروع نہ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر دباؤ کی بھی ضرورت ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ اسرائیل اور کئی دیگر ممالک کے تقریباً 237 شہری غزہ میں یرغمال بنائے گئے ہیں، لیکن غیر ملکی شہریوں کے بارے میں خیال نہیں کیا جاتا کہ وہ معاہدے کا حصہ ہیں۔
ایک ماہ سے زائد عرصہ قبل اغوا کرنے کے بعد سے حماس نے صرف 4 یرغمالیوں کو رہا کیا ہے، جن میں ایک امریکی ماں اور اس کی بیٹی اور دو بزرگ اسرائیلی خواتین شامل ہیں، حماس کے مطابق کچھ یرغمالی اسرائیلی بمباری میں مارے جاچکے ہیں۔
فلسطینی اسلامی جہاد گروپ کے مسلح ونگ القدس بریگیڈ نے، جو کہ حماس کے 7 اکتوبر کی چھاپہ مار کارروائیوں میں بھی شامل تھا، اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس کے زیر حراست اسرائیلیوں میں سے ایک خاتون ہلاک ہو گئی ہیں۔
القدس بریگیڈ نے اپنے ٹیلیگرام چینل پر بتایا کہ انہوں نے پہلے انسانی وجوہات کی بناء پر مذکورہ یرغمالی کی رہائی پر آمادگی ظاہر کی تھی لیکن دشمن کی جانب سے رکاوٹوں کے باعث اس کی موت واقع ہوئی۔