لیگی رہنما طلال چوہدری کا کہنا ہے کہ 18ویں آئینی ترمیم کو ختم کرنے کے حوالے سے پیپلزپارٹی نے جان بوجھ کر شوشہ چھوڑا ہے ابھی مسلم لیگ ن میں ایسی کوئی بات نہیں ہوئی اور نہ معاملے پر کسی سطح پر غور کیا گیا ہے۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے جوائنٹ سیکریٹری طلال چوہدری کا موقف تھا کہ 18ویں آئینی ترمیم کی کچھ شقوں پر تبدیلی پر بات ہوئی بھی تو تمام پارٹیوں کی مشاورت سے ہوگئی مسلم لیگ ن اس حوالے سے سولو فلائٹ نہیں لے گی۔
’ہم سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ ن اس دفعہ کے الیکشن میں سادہ اکثریت حاصل کرے تاکہ ملک کو فائدہ ہو سکے ہم اس پر محنت کر رہے ہیں نواز شریف نے 2013 میں بھی 18ویں ترمیم پر کوئی بات نہیں کی تھی۔‘
طلال چوہدری کے مطابق منشور کمیٹی کے پاس 18ویں ترمیم کو ختم کرنے یا کچھ شقوں میں تبدیلی کے حوالے سے کوئی تجاویز بھی موصول نہیں ہوئی، کمیٹی کے سربراہ عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن اپنے منشور میں 18ویں ترمیم میں تبدیلی کے حوالے سے کچھ بھی شامل نہیں کر رہی۔
’ہم ایک جمہوری جماعت ہیں اگر کوئی تبدیلی لانا بھی ہوئی تو مسلم لیگ ن اسکا فیصلہ اکیلے نہیں کرے گی، پیپلپزپارٹی سمیت تمام جماعتوں کے ساتھ مشاورت کی جائے گی، ہم اکیلے اس ترمیم میں تبدیلی کے حامی نہیں ہیں۔‘
18ویں ترمیم کو آئین کا حصہ کب بنایا گیا تھا؟
2010 میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران منظور ہونے والی 18ویں ترمیم کے ذریعے صحت، خواتین کی ترقی، سماجی بہبود اور مقامی حکومت سمیت عوامی خدمات کے اہم شعبوں میں اختیارات صوبوں کو منتقل کر دیے گئے تھے۔
مذکورہ ترمیم کے تحت وفاق کے وسائل میں صوبوں کا حصہ ساڑھے 57 فیصد مقرر کیا گیا تھا جبکہ باقی ماندہ وسائل وفاقی حکومت قرضوں کی ادائیگی، ترقیاتی پروگراموں اور دفاع وغیرہ پر خرچ کرتی ہے۔
پیپلزپارٹی کے خدشات
پیپلز پارٹی 18ویں آئینی ترمیم کا کریڈٹ لیتے ہوئے اسے اپنا ایک سیاسی سنگ میل قرار دیتی ہے، اسی تناظر میں 18ویں ترمیم میں مجوزہ کسی بھی تبدیلی کی سختی سے مخالفت کرتے ہوئے پارٹی کے سینئر رہنماؤں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس ترمیم کو ختم کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔
پارٹی رہنماؤں کے مطابق اگر 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی کی پرانی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آجائے تو یہ خدشات حقیقت بن سکتے ہیں، یاد رہے کہ 18ویں ترمیم میں تبدیلی کے مطالبات گزشتہ چند برسوں سے اقتدار کی راہداریوں میں گونجتے رہے ہیں۔