اس زمانے میں فراڈ کرنا جتنا آسان بن چکا ہے اتنا ہی فراڈ کرنے والے کو پکڑنا مشکل، جدید دور کے حساب سے لوٹنے والوں کے طریقہ واردات میں بھی جدت آچکی ہے، مطلب جو لٹا سو لٹا، اس کے بعد لوٹی گئی رقم کا واپس ملنا ناممکن ہے کیوں کہ کوئی ثبوت جو نہیں ملتا۔
کیا ایسے جرائم پیشہ عناصر واقعی قانون کی گرفت میں نہیں آسکتے؟ اس کا جواب یہ سچی کہانی پڑھنے کے بعد آپ بھی ضرور نفی میں دیں گے۔
تو شروع کرتے ہیں یہ دلچسپ کہانی پہلے کیس سے جو کراچی کے علاقے گلشن معمار تھانے میں درج ہوا، ایک بینک اکاؤنٹ سے ڈھائی لاکھ روپے کسی اور اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہو چکے تھے جو کہ اتنی بڑی رقم نہیں تھی لیکن چونکہ کسی کی محنت کی کمائی تھی تو اسے وہ ہر حال میں چاہیے تھی۔ بظاہر یہ ایک آسان سا کیس تھا کہ جس کے اکاؤنٹ میں رقم ٹرانسفر ہوئی ہے، وہی فراڈ کا مرتکب ہوا ہے۔
کیس گلشن معمار تھانے کے تفتیشی افسرعمرحیات ٹھاکر کے سپرد کیا گیا جنہوں نے اس اکاؤنٹ کو ٹریس کیا جسے رقم ٹرانسفر کی گئی تھی، اکاؤنٹ نکلا ٹنڈو آدم کے رہائشی کا، جسے پولیس نے حراست میں لے کر کراچی منتقل کردیا۔
تفتیش کے دوران گرفتار شخص نے بتایا کہ وہ اے ٹی ایم مشین سے 2 ہزار روپے نکالنے گیا، وہاں ایک شخص پہلے سے موجود تھا جس نے کہا کہ اس کا کارڈ نہیں چل رہا، لہذا آپ اپنا استعمال کر لیں۔ ’میں نے کارڈ جب استعمال کیا تو اس شخص نے کہا کہ آپ کا کارڈ پھنس گیا ہے، میں وہاں سے بینک کو آگاہ کرکے واپس آگیا۔‘
ٹنڈو آدم کے گرفتار شہری کے مطابق، بعد میں میسیج سے پتا چلا کہ اس کا اے ٹی ایم کارڈ اور ڈیجیٹل اکاؤنٹ کوئی اور استعمال کر رہا ہے۔ ’ڈھائی لاکھ روپے میرے اکاؤنٹ میں آنے کے بعد ہی میں نے اپنے بینک میں شکایت درج کرادی تھی، جس کی تصدیق تفتیشی افسر نے بینک سے بھی کرلی۔‘
سی سی ٹی وی دیکھنے کے بعد پولیس مزید حیران ہوئی جب پتا چلا کہ اے ٹی ایم سے رقم نکالتے وقت اس شخص کے ساتھ ایک اور شخص تھا جس نے اس شخص کے ساتھ کوئی دھوکا کیا تھا۔
چند روز بعد اسی نوعیت کا دوسرا کیس گلشن معمار تھانے میں ہی درج ہوتا ہے جس میں 18 لاکھ روپے لوٹے جا چکے تھے اور اس بار رقم جس اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کی گئی تھی وہ ایک پولیس کانسٹیبل کا تھا، جسے حراست میں لینے پر وہی کہانی سامنے آئی جو پہلے دھوکہ کھانے والا شخص سنا چکا تھا، اس کے بعد تیسرا مقدمہ بھی گلشن معمار تھانے میں ہی درج ہوا جس میں لوٹی گئی رقم 95 لاکھ روپے تک پہنچ گئی تھی۔
کیس کے تفتیشی افسرعمرحیات ٹھاکر نے وی نیوز کو بتایا کہ یہ ایک عجیب مشکل سا کیس تھا کیوں کہ ہمیں کوئی سرا نہیں مل رہا تھا، ہر حربہ استعمال کیا، اپنے مخبروں کو کام پر لگایا، صرف ایک راستہ تھا کہ اے ٹی ایم کارڈز سے جو ٹرانزیکشنز ہو رہی ہیں وہاں سے لوکیش کا پتہ چلایا جائے۔
ایسے ہی ایک دن اطلاع ملی کے متعلقہ شخص مہر علی چانڈیو نے ایک جگہ سے رقم نکلوائی ہے اور اب فرنیچر لے کر روانہ ہو چکا ہے، تفتیشی افسر کے مطابق جس سوزوکی میں فرنیچر گھر لیجایا جا رہا تھا اس کے ڈرائیور نے بتایا کہ وہ کسی گھر نہیں بلکہ سڑک پر ہی فرنیچر اتار کر واپس ہو گیا تھا۔
تفتیشی افسر کہتے ہیں کہ ایک امید تھی جس نے دم توڑ دیا تھا لیکن انہیں اللہ سے امید تھی کہ کوئی نہ کوئی سرا ضرور ملے گا۔ ’ہائی وے پر گشت کے دوران نماز کا وقت ہوا تو نماز پڑھنے کے بعد اس جگہ گیا جہاں سوزوکی سے فرنیچر اتارا گیا تھا، وہاں ایک سی سی ٹی وی کیمرہ لگا ہوا تھا اسکی ریکارڈنگ نکلوانے کا فیصلہ کیا۔‘
سی سی ٹی وی ریکارڈنگ دیکھنے پر پتا چلا کہ فرنیچر سوزوکی سے شہ زور ٹرک پر منتقل کیا گیا جس کا رخ ٹول پلازہ کی طرف تھا، اس کے بعد ایک اور جگہ سے ریکارڈنگ لی تو اس میں شہ زور کا نمبر بھی واضح آیا اور گاڑی کا رخ بھی جو کہ جمالی پل سے آگے نکل چکی تھی، ٹول پلازے سے لی گئی فوٹیج میں بھی یہی گاڑی نظر آئی۔
تفتیشی افسر نے بتایا کہ گاڑی نمبر سے ہم ڈرائیور تک پہنچے اور اسے تحویل میں لینے کے بعد اس نے بتایا کہ جس گھر فرنیچر گیا ہے وہ ٹنڈو آدم خان میں ہے اور میں وہاں آپ کو لے جا سکتا ہو تفتیشی افسر عمر حیات ٹھاکر اپنی ٹیم کے ہمراہ ٹنڈو آدم گئے لیکن متعلقہ شخص نہ ملنے کی صورت میں خود وہیں رک گئے باقی لوگوں کو واپس بھیج دیا۔
ملزم کی تلاش میں ناڑے بیچنے پڑے
تفتیشی افسر نے بتایا کہ گھر کی تصدیق متعلقہ فرد کی تصدیق اور گرفتاری کے لیے انہیں وہاں رکنا پڑا اور معلومات کے حصول کے لیے پرانے کپڑے اور ناڑے خرید کر بیچنے کا ڈھونگ رچایا۔ ’میں رات مسجد میں گزارتا اور ناڑے لے کر ایک چکر اس علاقے کا لگانے کے بعد اسی گھر کے سامنے بیٹھ جاتا جس کی نشاندہی ڈرائیور نے کی تھی۔
یہاں شادی ہو رہی ہے کیا؟
تفتیشی افسر نے بتایا کہ انہوں نے محلے میں کھیلتے بچوں سے پوچھا یہاں شادی ہو رہی ہے کیا تو بچوں نے حیرت سے نفی میں جواب دیا، لیکن جب پوچھا کہ کچھ دن پہلے یہاں فرنیچر کیوں آیا تو بچوں نے ساتھ والے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ فرنیچر یہاں نہیں بلکہ اس گھر میں آیا تھا اور یہاں تو چیزیں آتی رہتی ہیں۔
’بچوں سے ٹھیک گھر کا پتہ چلا اور میں اگلے دن اسی حلیے میں گھر پر گیا گھنٹی بجائی اندر سے ایک اماں باہر آئیں میں نے پانی مانگا اور جتنا ہو سکتا تھا ان سے معلومات لینے کی کوشش کیں جس کے مطابق لوٹنے والا شخص انکا بیٹا لگتا تھا جو کہ کراچی بڑا افسر ہے۔‘
تفتیشی افسر کہتے ہیں کہ پھر ایک دن مہر علی چانڈیو اپنے گھر آیا لیکن جب تک ہم تیاری کر رہے تھے وہ واپس جا چکا تھا مزید معلومات کے مطابق اسکا اپنا گھر ٹنڈو آدم خان میں ہے جہاں اسکی ماں اور بیوی رہتے ہیں جبکہ ایک بیوی حیدر آباد میں رہتی ہے اور یہ شخص سندھ بھر میں لوگوں کو ایسے ہی لوٹتا ہے جس میں اسکا پتا لگانا تو مشکل ہے لیکن دوسرے لوگ پھنستے جا رہے ہیں۔
بالآخر پولیس نے ملزم گرفتار کر ہی لیا
تفتیشی افسر ملزم مہر علی چانڈیو کی گاڑی دیکھ چکا تھے اور اس کا نمبر بھی پھیلا چکے تھے، ایک دن پتا چلا کہ ٹنڈو آدم میں ایک سروس اسٹیشن پر گاڑی موجود ہے۔ ’ہم ایک بار پھر ٹیم کے ہمراہ کراچی سے روانہ ہوئے مقامی پولیس کے تعاون سے ملزم کو گرفتار کرلیا گیا، ملزم کے خلاف سندھ بھر میں بینک فراڈ سے متعلق اس نوعیت کے 24 مقدمات درج تھے۔
احتیاط کیجیے کیوں کہ ملزم پھر فرار ہے
تفتیشی افسر عمر حیات ٹھاکر نے تو ملزم مہر علی چانڈیو سے اپنے تھانے میں درج تینوں مقدمات میں لوٹی ہوئی رقم برآمد کراچکے ہیں، مگر عدالت سے ضمانت حاصل کرنے کے بعد سے ملزم مفرور ہے اور تفتیشی افسر کے ذرائع کے مطابق ملزم ایک مرتبہ پھر انہی وارداتوں میں ملوث ہے۔