مریم نواز شریف پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ بنیں تو پارٹی تنزلی کا شکار تھی۔ پی ڈی ایم حکومت کے دوران ان کے چچا شہباز شریف کے بطور وزیر اعظم مشکل ترین معاشی فیصلوں اور عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد ان کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف یلغار کے نتیجے میں انہیں ملنے والی مقبولیت نے مسلم لیگ نواز کو ایک دوراہے پر لا کھڑا کیا۔ اب مریم کو ٹاسک ملا ہے کہ پنجاب میں بہترین کارکردگی دکھا کر پارٹی کی تیزی سے گرتی مقبولیت کو بحالی کی پٹڑی پر لانا ہے۔
مریم نواز نے وزارت اعلیٰ کی کرسی سنبھالتے ہی بڑے بڑے منصوبوں کا اعلان کردیا۔ مہنگائی کم کرنے کے جتن کرنا شروع کردیے۔ گندم کی بمپر فصل نے روٹی سستی کرنے کی راہ ہموار کردی۔ انتظامیہ کو ہدایات دیں کہ روزمرہ استعمال کی اشیاء بالخصوص کھانے پینے اشیاء کی قیمتوں کو مستحکم رکھنے کے لیے کڑی نگرانی کی جائے۔
مزید پڑھیں:12 مئی جب ہم موت کے منہ سے نکلے
پہلے 100 دن میں مفت ادویات کی فراہمی، ایئر ایمبولینس، سستی روٹی، ایک لاکھ بے گھر افراد کے لیے اپنا گھر، کینسر اسپتال، طلباء کو 20 ہزار الیکٹرک بائیکس فراہمی، نوازشریف آئی ٹی سٹی کے قیام جیسے منصوبوں پر فوری کام شروع کرنے کی ہدایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی پارٹی اور حریف جماعتوں کے ناقدین کو بتانا چاہتی وہ صوبے میں اپنی جماعت کو دوبارہ عروج دلانے میں ضرور کامیاب ہوں گی۔ مہنگائی کم کرکے وہ عوام میں سرخ رو ہونا چاہتی ہیں کہ وہ مرد سیاستدانوں سے کم نہیں۔
مگر وفاق میں بیٹھے ان کے چچا وزیراعظم شہباز شریف آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے بجلی گیس کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں جس قدر اضافہ کر رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ مریم نواز کے روایتی منصوبے اور بھاگ دوڑ کام آتی دکھائی نہیں دیتی۔ بجلی کے بڑھتے بلوں اور نئے ٹیکسوں کی بھرمار نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ ایسی صورت حال میں ان کی کمائی کچھ خریدنے کے بجائے صرف بل ادا کرنے پر خرچ ہوگی۔ مریم کے منصوبے عوام کے غم و غصے کو کسی صورت کم کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہو پائیں گے۔
مزید پڑھیں:عمران خان کو فوج سے متعلق کون سی غلط فہمی لے بیٹھی؟ سہیل وڑائچ کے انکشافات
کہا جا رہا ہے کہ صوبائی حکومت نے کسانوں سے سرکاری نرخ پر گندم نہ اٹھانے کا فیصلہ اس لیے کیا تاکہ آٹے کی قیمت کم ترین سطح پر چلی جائے اور شہروں میں عوام کو ریلیف دے کر اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کیا جاسکے کیونکہ عام تاثر ہے کہ مسلم لیگ نواز دیہات کے بجائے شہری حلقوں میں زیادہ مقبول رہی ہے جہاں تاجر برادری نے ہمیشہ نواز شریف کا ساتھ دیا ہے۔
دیہات میں کسان پنجاب حکومت کے اس رویے سے انتہائی نالاں ہیں کیونکہ انہوں نے گندم کی فصل وافر مقدار میں کاشت اس امید سے کی کہ انہیں سرکاری نرخوں پر اچھا معاوضہ مل سکے مگر سرکار کے فیصلے کے بعد انہیں اپنی گندم کوڑیوں کے بھاؤ بیچنا پڑی۔
مسلم لیگ نواز کی حکمت عملی تھی کہ اگر کسان ناراض ہو بھی جائیں گے تو انہیں شاید زیادہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ شہری علاقوں میں سستی روٹی مہیا کرنے کے بعد وہ عوام سے داد وصول کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے مگر سب الٹا ہو گیا۔ وفاق کی پالیسیوں اور فیصلوں نے سب سے زیادہ شہروں میں بسنے والی آبادی کو متاثر کیا ہے۔ انہیں مریم کے منصوبوں میں کوئی کشش نظر نہیں آتی۔ یعنی دیہات میں کسان ناراض تو شہروں میں ہر طبقہ برہم۔
مزید پڑھیں:مقفل دل و دروازوں والے لوگ
مسلم لیگ کے قائد نواز شریف خاموش ہیں۔ ان کی اس خاموشی پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ ایک طرف ان کی پارٹی مصر ہے کہ تمام فیصلوں میں نواز شریف کو اعتماد میں لیا جاتا ہے اور پنجاب میں بھی تاثر دیا جا رہا ہے کہ تمام منصوں میں نواز شریف کی رائے شامل ہے۔ پھر بھی نواز شریف خاموش کیوں ہیں؟ کہا جا رہا تھا کہ پارٹی کی صدارت سنبھالتے ہی وہ سیاست میں بھرپور طریقے سے متحرک ہوجائیں گے۔ مگر وہ پہلے سے بھی زیادہ لاتعلق ہوگئے ہیں۔ اب کہا جا رہا ہے کہ محرم کے بعد وہ پارٹی معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر تمام بڑے مسائل حل کرنے کے لیے اہم فیصلے کریں گے مگر ایسا لگتا ہے کہ بہت دیر ہو چکی ہے۔
لوگ تو یہ بھی کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ مسلم لیگ نواز کی یہ آخری حکومت ہوگی۔ کیونکہ تمام مشکل ترین معاشی فیصلے کرنے کی ذمہ داری اسی حکومت کے کندھوں پر ہے۔ ملک ایسی نہج پر پہنچ چکا ہے کہ ان اقدامات کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اس کی قیمت مسلم لیگ نواز کو ہی ادا کرنا پڑے گی اور اس کا پھل شاید کوئی اور کھائے گا۔ اسی ڈر سے ماضی میں عمران خان سمیت کوئی رہنما کڑوے فیصلے کرنے کی ہمت نہیں کرسکا اور ملک دیوالیہ پن کے کنارے پر پہنچ گیا۔