دور جدید میں ہر گزرتے دن کے ساتھ ٹیکنالوجی میں جدت نے معلومات کا حصول آسان بنا دیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں معلومات تک رسائی کے قوانین پر عملدرآمد سے جہاں بدعنوانی کا خاتمہ ممکن ہوا ہے وہیں خود احتسابی کا عمل بھی پروان چڑھا ہے۔
بات کی جائے اگر پاکستان کی تو آئین کا آرٹیکل 19 اے عوام کی معلومات تک رسائی کے حق کی مندرجہ ذیل الفاظ میں ضمانت دیتا ہے کہ ہر شہری کو عوامی اہمیت کی حامل تمام معلومات تک رسائی کا حق ہوگا۔
آئین میں 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو اپنے ’آر ٹی آئی‘ قوانین بنانے کا اختیار دیا گیا تھا۔ معلومات تک رسائی کا حق اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف نمبر 16 کے تحت آتا ہے جو رکن ممالک کو 2030 تک درجہ حاصل کرنے کا پابند بناتا ہے۔
مزید پڑھیں
تاہم پنجاب، سندھ اور وفاق میں اس قانون پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے جو آٹے میں نمک کے برابر ہے، ایسے میں ملک کا پسماندہ ترین صوبہ بلوچستان معلومات تک رسائی کا بل یکم فروری 2021 کو منظور تو کروا چکا ہے لیکن اس پر عملدرآمد کروانا باقی ہے۔
معلومات تک رسائی کے بل پر عملدآمد کرانے کے لیے رولز آف بزنس سمیت مختلف محکموں میں انفارمیشن آفیسرز کی تعیناتی کا عمل اب تک مکمل نہیں ہوسکا تاہم معلومات تک رسائی کے کمشین کو فعال کرنے کے لیے نگراں کابینہ نے حال ہی میں انفارمیشن کمیشن قائم کرنے کی منظوری کا اعلان کیا ہے۔
معلومات تک رسائی کے کمیشن کا قیام اہمیت کا حامل ہے، جان اچکزئی
نگراں وزیر اطلاعات جان اچکزئی کے مطابق معلومات تک رسائی کے کمیشن کا قیام انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ بلوچستان انفارمیشن کمیشن کے افتتاح کے لیے 4 انفارمیشن کمشنرز کی تقرری جلد کر دی جائے گی۔
ملک بھر میں ان دنوں عام انتخابات کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں ایسے میں اگر بلوچستان میں معلومات تک رسائی کا قانون نافذ العمل ہو جائے تو نتائج مختلف ہوسکتے ہیں۔
عوام کو معلومات تک رسائی ہو گی تو نمائندوں کے انتخاب میں بھی آسانی ہو گی، رضا علی
سینٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو (سی پی ڈی آئی) کے کوآرڈینیٹر سید رضا علی نے بتایا کہ اگر عوام کو معلومات تک رسائی حاصل ہوگی تو شہریوں کو رائے شماری کے دوران بہتر عوامی نمائندے کے انتخاب میں مدد ملے گی جو مثالی معاشرے کے لیے ضروری ہے۔ مثال کے طور پر صوبے میں کون سی سیاسی جماعت نے شہریوں کے لیے بہتر قانون سازی کی یا بہتر ترقیاتی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا تو ایسی صورت میں ووٹر اس بات کا بہتر موازنہ کرسکتے ہیں کہ فلاں جماعت نے اپنے دور حکومت میں عوامی مفاد کے لیے زیادہ کام کیا۔ ایسے میں وہی جماعت یا رہنما انتخابات میں کامیابی حاصل کرے گا جو بہتر انداز میں عوام کی خدمت کرے گا۔
قانون پر عملدرآمد ہو تو انتخابی نتائج کچھ اور ہو سکتے ہیں، سعداللہ اختر
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی ادارے کے صحافی سعد اللہ اختر نے بتایا کہ معلومات تک رسائی کے قانون پر اگر مکمل عملدرآمد کر دیا جائے تو اس سے انتخابات کے نتائج بھی تبدیل ہو سکتے ہیں کیونکہ صوبے میں آج بھی کئی ایسے علاقے موجود ہیں جہاں سے کارکردگی کے بغیر ہی سیاسی رہنما ایوانوں تک با آسانی پہنچ جاتے ہیں ایسے میں عوام کے پاس ان رہنماؤں کی کارکردگی کو ناپنے کا کوئی پیمانہ موجود نہیں ہوتا جس کی وجہ سے یہی لوگ بار بار ایوان کا حصہ ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ دوسری جانب یہ بھی ضروری ہے کہ عوام کو اس قانون سے متعلق آگاہی فراہم کی جائے تاکہ لوگ اس قانون کا مثبت استعمال کر کے ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
معلومات تک رسائی کیوں ضروری ہے؟
سینٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو(سی پی ڈی آئی) کے کوآرڈینیٹر سید رضا علی نے بتایا کہ معلومات تک رسائی کے قانون پر عملدرآمد احتساب کے عمل کو فروغ دینے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ حکومتی اداروں کا بوسیدہ نظام اور طریقہ کار عوام کو دیگر راستے اختیار کرنے پر مجبور کرتا ہے کیونکہ عام شہری اور اداروں کے درمیان ایک فاصلہ موجود رہتا ہے ایسے میں کرپشن پروان چڑھتی ہے۔ جمہوری معاشروں میں معلومات تک رسائی کے قانون کو بدعنوانی ختم کرنے کا ایک ذریعہ تصورکیا جاتا ہے اس قانون کے نفاذ سے عوام اور اداروں کے درمیان دوری کم کی جاسکتی ہے۔
انہوں نے کہاکہ اگر یہ قانون صوبے میں باقاعدہ طور پر نافذ ہو جائے تو شہریوں اور اداروں کے درمیان موجود فاصلہ کم ہوتا جائے گا اور عوام کو اپنے اداروں کی کارکردگی پر مکمل اعتماد ہوگا ایسے میں اداروں میں موجود لوگوں کو بھی یہ معلوم ہوگا کہ ان کی بدعنوانی کبھی بھی پکڑی جاسکتی ہے۔
بل پاس ہونے کے 2 سال بعد بھی اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا، رضا علی
رضا علی نے کہا کہ ملک بھر میں معلومات تک رسائی کا قانون نافذ العمل ہے لیکن بلوچستان میں بل کے پاس ہونے کے 2 سال بعد بھی اس پر مکمل عملدرآمد نہیں کروایا جا سکا ہے جس کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ سیاسی مداخلت ہے۔
’معاملہ یوں ہے کہ اگر ادارے احتساب کے دائرے میں آئیں گے تو پارلیمان بھی احتساب کے دائرے میں آجائے گا ایسے میں لوگ اپنی من مانی نہیں کر سکیں گے۔ ’آر ٹی آئی‘ کے صوبے میں نافذ نہ ہونے کی دوسری بڑی وجہ بیوروکریسی کی نوآبادیاتی ذہنیت ہے۔ صوبے کی بیوروکریسی خود نہیں چاہتی کے وہ عام آدمی کو جواب دہ ہو‘۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاق اور پنجاب کی نسبت بلوچستان میں صحافیوں اور عام شہریوں کی جانب سے بھی معلومات تک رسائی حاصل کرنے کی جستجو موجود نہیں جس کی وجہ سے یہ قانون اب تک نافذ نہیں ہو سکا۔ بد قسمتی سے بلوچستان میں معلومات تک رسائی کا بل سب سے زیادہ کمزور ہے جو باعث تشویش ہے۔
معلومات تک رسائی سے متعلق کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سینیئر تحقیقاتی صحافی مجیب اللہ نے بتایا کہ پنجاب، سندھ، وفاق حتیٰ کے خیبرپختونخوا میں بھی معلومات تک رسائی کے قانون کا استعمال ہو رہا ہے لیکن بلوچستان وہ بد قسمت صوبہ ہے جہاں معلومات حاصل کرنا ایک مشکل عمل ہے۔
انہوں نے کہاکہ جام کمال کے دور حکومت میں معلومات تک رسائی کے بل کو ایوان نے اکثریت سے منظور کیا جو ایک خوش آئند عمل تھا لیکن انفارمیشن کمیشن کے قائم ہونے سے اس کی افادیت نہ ہونے کے برابر ہے۔
قانون پر عملدرآمد نہ ہونے سے کئی اسکینڈلز دب گئے، مجیب اللہ
مجیب اللہ نے بتایا کہ بلوچستان میں ’آر ٹی آئی‘ کا قانون نافذ العمل ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ ماضی میں یہاں سے کرپشن کے ایسے اسکینڈل سامنے آئے ہیں جو ملک کی تاریخ کے بڑے اسکینڈلز میں سے ایک تھے۔ آج بھی اگر ان کیسز سے متعلق معلومات حاصل کرنا ہوں تو یہ عمل جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا جس کی وجہ سے بدعنوانی صوبے میں پروان چڑھ رہی ہے۔
مجیب اللہ نے بتایا کہ تحقیقاتی صحافت کی غرض سے ڈی سی آفس سمیت کئی ملکوں کو 10 سے زیادہ ’آر ٹی آئی‘ فائل کیں لیکن ان میں سے کسی بھی محکمے نے جواب دینے کی زحمت نہیں کی۔ تاہم ریجنل ہیومین رائٹس کمیشن کی جانب سے ایک ’آر ٹی آئی‘ کا جواب بھی اس صورت میں آیا کہ وہاں میرا ایک سورس موجود تھا جسے میں نے فون کر کے بتایا کہ ہیومن رائٹس کمیشن کو ایک ’آر ٹی آئی‘ فائل کی ہے وہ بھی محکمے کی جانب سے کسی قسم کی معلومات فراہم نہ کی گئی البتہ میرے سورس نے مجھے ذاتی تعلق کی بنا پر ڈیٹا فراہم کیا۔
معلومات تک رسائی کا طریقہ کار
بلوچستان کے ’آر ٹی آئی‘ بل کا طریقہ کار کچھ ہوں ہے کہ جو شہری کسی بھی محکمے سے معلومات حاصل کرنا چاہتا ہو وہ سادہ کاغذ پر متعلقہ محکمے کے انفارمیشن آفیسر کو تحریری درخواست دے گا۔ جس کے بعد درخواست وصول کرنے والا آفیسر 14 سے 28 دن کے اندر شہری کو مطلوبہ معلومات تحریری صورت میں فراہم کرے گا۔ بل کے مطابق اگر متعلقہ آفیسر وقت مقررہ کے اندر معلومات کی فراہمی کو یقینی نہیں بناتے تو درخواست گزار ’آر ٹی آئی‘ کے تحت قائم انفارمیشن کمیشن سے رجوع کرتے ہوئے تحریری شکایت نامہ دے گا۔
یوں کمیشن 60 یوم کے اندر موصول ہونے والی شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے فیصلہ سنانے کا پابند ہوگا۔ کمیشن کا متعلقہ آفیسر جو شہری کو مقررہ وقت کے اندر معلومات فراہم نہ کرنے کا مرتکب ٹھہرا اسے سزا کے طور پر 2 سال تک سزا یا ایک لاکھ روپے جرمانہ یا پھر دونوں سزائیں سنائی جا سکتی ہیں۔