پاکستانی کرنسی میں سب سے بڑا نوٹ 5 ہزار روپے کا ہے جس کی منسوخی کے حوالے سے ملک میں وقتاً فوقتاً بحث کا آغاز ہوجاتا ہے اور بیان یہ کیا جاتا ہے کہ اس نوٹ کے متروک ہوجانے سے ملکی معیشت میں بہتری آجائے گی۔
یاد رہے کہ پاکستان میں 5 ہزار روپے کا نوٹ 27 مئی 2006 کو جاری ہوا تھا اور اس وقت ملک میں گردش کیے جانے والے ایسے نوٹوں کی کل مالیت نوٹ 4 ہزار 500 ارب روپے ہے۔
واضح رہے کہ 2 دن قبل ایوان بالا میں 5 ہزار روپے کے کرنسی نوٹ کو ختم کرنے کے حوالے سے بحث پر نگراں وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات و پارلیمانی امورمرتضیٰ سولنگی کا کہنا ہے کہ 5 ہزار روپے کا نوٹ ختم کرنے کا اختیارنگراں حکومت کے نہیں بلکہ اسٹیٹ بینک کے پاس ہے اور تحریک انصاف کی حکومت نے اسٹیٹ بینک کو خود مختار بنایا تھا اس لیے یہ معاملہ منتخب حکومت پر چھوڑ دیا جائے۔
حال ہی میں سینیٹر محسن عزیز کی جانب سے اس نوٹ کے خاتمے کے لیے پیش کی گئی تحریک میں کہا گیا تھا کہ دہشتگردی کے لیے معاونت میں 5 ہزار روپے کا نوٹ زیادہ استعمال ہورہا ہے جبکہ ساڑھے 3 کھرب سے زیادہ جعلی نوٹ بھی مارکیٹ میں زیر گردش ہیں لہٰذا کرپشن کے خاتمے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ یہ نوٹ بند کردے۔
سینیٹر محسن عزیز کا کہنا تھا کہ جن کے پاس 5 ہزار کے نوٹ ہیں انہیں وہ بینکوں میں لانے کا موقع دیا جائے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس اقدام سے مہنگائی، کرپشن اور اسمگلنگ کم ہوگی اور بہتر نتائج نکل سکتے ہیں۔
لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 5 ہزار کا کرنسی نوٹ ختم ہو جانے سے عوام کو کیا فائدہ ہوگا اور کیا واقعی اس کے خاتمے سے معیشت میں کوئی سدھار ممکن ہے؟
اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے معاشی ماہر خرم شہزاد کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں 5 ہزار کا کرنسی نوٹ ختم ہو جانے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا کیونکہ جب مہنگائی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے تو لوگ گھروں میں کیش رکھنا چاہتے ہیں مگر وہ رکھ نہیں پاتے کیونکہ ان کے اخراجات بھی بڑھ جاتے ہیں اور پیسے خرچ ہوتے رہتے ہیں۔
خرم شہزاد نے کہا کہ ویسے بھی روپے کو ہولڈ کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی کیونکہ زیادہ تر لوگ گاڑیوں اور پراپرٹی میں پیسے انویسٹ کر دیتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نوٹ کو ختم کرنے کے نقصانات بہت زیادہ ہوتے ہیں اور 4 سے 5 ممالک نے ایسا ہی کیا تھا لیکن انہیں فائدے کی بجائے نقصان ہی اٹھانا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں اس وقت معاشی عدم استحکام اور مہنگائی اتنی زیادہ ہے کہ لوگ چاہیں بھی تو گھروں میں کرنسی نہیں رکھ سکتے کیونکہ گھروں میں پیسہ رکھ کر تو لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور وہ اتنے کے اتنے ہی رہتے ہیں اس لیے لوگ ڈالر، گاڑی یا پھر پراپرٹی لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جو چند لوگ گھروں میں رکھتے ہیں انہیں بینکنگ سسٹم پر اعتماد نہیں ہوتا یا کسی وجہ سے وہ وہاں اپنی رقم رکھنا نہیں چاہتے اس لیے وہ کمیٹیاں ڈال لیتے ہیں۔
ماہر معاشیات ڈاکٹر سلمان شاہ نے بھی اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 5 ہزار روپے کے کرنسی نوٹ کو ختم کر دینے سے معاشی حالات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا بلکہ الٹا بیروزگاری میں اضافہ ہو سکتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جتنے بھی کاروبار ہیں وہ زیادہ تر کیش کے ذریعے لین دین کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر اس طرح کے کرنسی نوٹ کو ختم کیا جاتا ہے تو کاروباری افراد کے لیے مسائل پیدا ہوجائیں گے جس سے معاشی حالات مزید ابتر ہونے کا خدشہ پیدا ہوگا۔
سلمان شاہ کا کہنا تھا یہ یہ فائدہ مند اس صورت میں ہو سکتا ہے جب پورا نظام ڈیجیٹلائزیشن کی جانب جائے ایسی صورت میں سارا نظام کمپیوٹرائزڈ ہو جائے گا اور لوگ پھر بینکوں میں پیسے رکھیں گے اور ٹرانزیکشن بھی آن لائن کریں گے اور اگر ایسا نہیں ہوتا اور کرنسی نوٹ بھی ختم کر دیا جاتا ہے تو پھر لوگ اس کا متبادل تلاش کریں گے جیسے سونا یا پرچی سسٹم وغیرہ۔
معاشی ماہر ڈاکٹر فرخ سلیم نے بات کرتے ہوئے کہا کہ کرنسی نوٹ کو بند کرنے میں عوام کو فائدہ نہیں پہنچے گا بلکہ انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی سب سے بڑی مثال ہے جس نے کالے دھندے اور کرپشن سے بچنے کے لیے کرنسی نوٹ پر پابندی لگائی لیکن اس سے فائدہ نہیں ملک کی معاشی سرگرمیوں میں خلل پیدا ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ نوٹ کے متروک ہونے کے نتیجے میں نقدی کی اچانک اور شدید قلت پیدا ہوگئی اور خاص طور پر غیر رسمی شعبے یعنی زراعت اور دیگر شعبے بہت بری طرح متاثر ہوئے۔
فرخ سلیم نے معاشی سرگرمیوں اور سپلائی چین میں خلل ڈالنے کی بجائے بدعنوانی کا مقابلہ کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ محض عارضی طور پر بد عنوانی سے نمٹنا نہیں ہے بلکہ اس وسیع مسئلے کا ایک پائیدار اورر طویل مدتی حل تلاش کرنا ہے جو معیشت اور شہریوں کی زندگیوں کو غیر ضروری طور پر متاثر نہ کرے۔
وی نیوز نے اس حوالے سے اسٹیٹ بینک کے ترجمان کے مؤقف کے حصول کی کوشش کی تاہم اس جانب سے گریز کا مظاہرہ کیا گیا۔