کیا پاکستان سے سارا ٹیلنٹ بیرون ملک چلا گیا؟

جمعرات 23 نومبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان میں برین ڈرین کا سلسلہ 2023 میں بھی جاری ہے۔ بڑی تعداد میں پڑھے لکھے نوجوان موقع ملتے ہی دوسرے ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔ اور ان میں زیادہ تر افراد یورپ جانے کے خواہشمند ہیں۔ پاکستانی یونیورسٹیوں سے ہر 6 ماہ بعد ہزاروں کی تعداد میں نوجوان گریجویٹ ہوتے ہیں اور لاکھوں نوجوان بے روزگار ہیں۔

بیرون ملک جانے والوں میں ایک بڑی تعداد آئی ٹی اور میڈیکل سیکٹر کی ہے۔ جن میں سافٹ ویئر انجینئرز، آئی ٹی انجینئرز، ڈاکٹرز، نرسز اور فارما سوٹیکل کے شعبے سے منسلک افراد شامل ہیں۔

بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے رواں برس ستمبر تک کے اعداد و شمار کے مطابق ملک سے 2580 ڈاکٹرز، 3292 نرسز اور 117 فارماسسٹ بیرون ممالک جا چکے ہیں۔

واضح رہے کہ نوجوانوں کا کہنا ہے کہ ملک میں نوکریاں نہیں ہیں اور دوسری جانب اداروں سے یہ سننے کو ملتا ہے کہ ٹیلنٹ ہی نہیں ہے۔ یہاں سوال ملک کے تعلیمی نظام پر بھی اٹھتا ہے کہ آخر یونیورسٹیوں میں 4 سال پڑھ کر ڈگری حاصل کرنے والے طلبا و طالبات کیوں نوکریاں حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔

ہزاروں کی تعداد میں ڈاکٹرز بیروزگار، میرٹ کا فقدان ہے، ڈاکٹر فضل ربی

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے پریمیئر انٹرنیشنل اسپتال سے وابستہ آئی سی یو اسپیشلسٹ ڈاکٹر فضل ربی نے کہا کہ پاکستان سے ڈاکٹرز کے بیرون ملک جانے کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کے معاشی حالات ہیں۔ پاکستان میں ٹیلنٹ تو بہت ہے مگر بدقسمتی سے ٹیلنٹ کی قدر نہیں ہے۔ پاکستان میں اس وقت ہزاروں کی تعداد میں ڈاکٹرز بے روزگار ہیں۔ اور اس کی وجہ میرٹ کا فقدان ہے۔ اس صورت میں ان کے پاس بیرون ممالک جانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

’پاکستان میں ڈاکٹرز کی بے قدری کا عالم یہ ہے کہ اگر کوئی سرجن ہے تو اس کو دور دراز کسی گاؤں کے ایسے اسپتال میں منتقل کر دیا جاتا ہے جہاں آپریشن تھیٹر ہی نہ ہو‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں کبھی کوئی مارکیٹ سروے ہوا ہی نہیں کہ کس سیکٹر میں کتنے افراد کی نوکری کے لیے ضرورت ہے۔

ایک کروڑ لگا کر تعلیم حاصل کرنے والے کو 50 سے 60 ہزار تنخواہ ملتی ہے

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ایک طالب علم پرائیویٹ سیکٹر میں ایک کروڑ روپے لگا کر تعلیم حاصل کر کے آتا ہے اور اس کو 50 یا 60 ہزار کی نوکری ملتی ہے۔ پھر تنخواہ بھی 2 یا 3 ماہ بعد ملے تو مایوسی کا کیا عالم ہو گا۔

انہوں نے کہاکہ ایسی صورتحال میں تو نوجوان ملک چھوڑ کر جانا ہی چاہیں گے، جبکہ اس کا فائدہ ان ممالک کو ہو رہا ہے جہاں پڑھے لکھے نوجوان جا رہے ہیں۔ یورپ اور گلف ان میں سرفہرست ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ باہر کے ممالک کو بہت کم پیسوں میں اچھے اسکلڈ لوگ مل جاتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ جلد اس بات کا ادراک کر لیا جائے کہ نوجوان پاکستان کا اثاثہ ہیں، اگر وہ ایسے ہی جاتے رہیں گے تو ملک کا مزید برا حال ہو جائے گا۔

پاکستان میں نوکریاں تعلق اور سفارش کی بنیاد پر ملتی ہیں، ماریہ احمد

ماریہ احمد اس وقت اسلام آباد کے ایک نجی اسپتال میں ہاؤس جاب کر رہی ہیں، انہوں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں طب کے شعبے کا کوئی حال نہیں ہے ۔ یہاں پر پروفیشنلی کوئی کام نہیں ہوتا، ہمیں جو ایم بی بی ایس کے دوران پڑھایا اور سکھایا گیا وہ اس پریکٹس سے بلکل مختلف ہے۔

’پاکستان کے اسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے اس پر میں بہت حیران ہوں، سینیئر ڈاکٹرز ہم جیسے نئے آنے والوں کو ٹکنے ہی نہیں دیتے، نوکریاں تو تعلق اور سفارش کی بنیاد پر ہوتی ہیں، اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کتنے پروفیشنل ہیں۔ یہ وہ پیشہ ہے جس میں لوگ آپ کو دعائیں دیتے ہیں مگر پاکستان میں رہ کر اتنے ناقص نظام میں صرف بدعائیں ہی مل سکتی ہیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں 3 ماہ میں ہی تنگ آچکی ہوں، بعض اوقات ڈاکٹرز سفارشی مریض کو ایک ایسے مریض پر ترجیح دے دیتے ہیں جو وینٹی لیٹر پر زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہو۔ یہاں کچھ ڈاکٹرز بھی اس سفارشی کلچر سے شدید تنگ آ چکے ہیں، لیکن اگر وہ بات نہیں مانتے تو ان کی نوکری کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے اور تقریباً 150 سے زیادہ ڈاکٹرز اس سال انہی مسائل کی وجہ سے اسپتال چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ اس کی وجہ تنخواہوں کا بہت کم او دوسرا ناقص نظام ہے۔

’مجھے بھی اب احساس ہونے لگا ہے کہ میں جلد از جلد یہ ملک چھوڑ دوں کیونکہ اس ملک میں رہتے ہوئے نا ہی اس پیشے سے عزت ملے گی اور نا ہی کمائی ہوسکتی ہے، ہمارے جتنی تنخواہ تو ایک سیکیورٹی گارڈ کو بھی مل جاتی ہے‘۔

لوگوں کو آگاہی آ گئی ہے کہ بیرون ملک آئی ٹی ماہر کی کتنی ڈیمانڈ ہے، تمجید عجازی

آئی ٹی کمپنی ’بیلا کارپ‘ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر تمجید عجازی نے بات کرتے ہوئے کہا کہ کرونا وبا کے بعد سے پوری دنیا میں ریموٹ جابز کا کلچر بہت عام ہو گیا ہے۔ جتنے بھی پلیٹ فارمز ہیں جیسے اپ ورک، فائیور وغیرہ یہاں پر جو تنخواہ آفر کی جاتی ہے اس کی شروعات 4 یا 5 ہزار ڈالر سے ہوتی ہے اور پاکستان میں کوئی آئی ٹی گریجویٹ نوکری کے لیے جاتا ہے تو اسے 50 یا 60 ہزار تنخواہ دی جاتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ ریموٹ جابز کے ذریعے لوگوں کو اتنی آگاہی آ گئی ہے کہ بیرون ملک آئی ٹی فیلڈ کے لوگوں کی کتنی ڈیمانڈ ہے اور انہیں اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ اگر وہ کہیں باہر جا کر نوکری تلاش کریں تو انہیں اتنے مسائل نہیں ہوں گے اور 6 مہینوں کے اندر ایک اچھی زندگی گزارنے کی شروعات کر سکتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں اچھے پیمانے پر کام کرنے والے سافٹ ویئر ہاؤسز بہت کم ہیں جبکہ صرف ٹائم پاس سافٹ ویئر ہاؤسز بہت زیادہ ہیں۔ گریجویشن کے بعد طلبا جب فیلڈ میں جاتے ہیں تو 2 سے 3 برس کام کرنے کے بعد انہیں پاکستان اور انٹرنیشنل مارکیٹ کا اندازہ ہوجاتا ہے جس میں زمین آسمان کا فرق ہے، جب وہ یہ دیکھتے ہیں تو وہ باہر جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر عوامل بھی ہیں کہ پاکستان میں معاشی، سیاسی، کاروباری مسائل بہت زیادہ ہیں۔

مارکیٹ میں نوکریاں ان افراد کے لیے نہیں جن کو کام نہیں آتا

’میرے خیال میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مارکیٹ میں آئی ٹی سے منسلک نوکریاں نہیں ہیں تو وہ بلکل غلط کہتے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ جو طلبا بی یا سی کلاس کی یونیورسٹیوں سے پڑھتے ہیں ان کو انٹرویو کے دوران اس بات کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ ان کے پاس وہ اسکلز ہیں ہی نہیں جو مارکیٹ ڈیمانڈ کر رہی ہے‘۔

تمجید عجازی کہتے ہیں مارکیٹ میں نوکریاں ان افراد کے لیے نہیں ہیں جن کو کام نہیں آتا اور اس کی بنیادی وجہ یونیورسٹیوں میں 15 سے 20 سال پرانا نصاب پڑھایا جاتا ہے۔ مارکیٹ میں ڈیمانڈ اور سپلائی کا جو فرق ہے وہ ایک بہت ہی بڑی وجہ ہے اور دوسری بڑی وجہ پاکستان میں یرغمال گریجویٹس کا پروفیشنل رویہ نہ ہونا ہے۔

انہوں نے کہاکہ ان مسائل کو حل کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے والے نصاب کو اپ ڈیٹ کیا جائے، انٹرنیشنل یونیورسٹیوں کے ساتھ اشتراک کرنا چاہیے اور طلبا کو ایسی ٹریننگ دی جائے کہ وہ گریجویٹ ہونے کے بعد مارکیٹ میں نوکریاں بآسانی حاصل کر سکیں۔

سوچتا ہوں کہیں باہر جا کر مزدوری ہی کر لوں، سافٹ ویئر انجینئر سرمد حسین

سرمد حسین گزشتہ ایک برس سے بی ایس سافٹ ویئر انجینئرنگ کے بعد بے روزگار ہیں، انہوں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں نوکریوں کی تعداد بہت محدود ہے اور جہاں بھی نوکریاں آتی ہیں ان کے لیے تجربہ ضرور مانگا جاتا ہے اور ایک فریش گریجویٹ کہاں سے تجربہ لے کر آئے۔ نوکری ملے گی تو ہی تجربہ بھی ہو گا۔

’یونیورسٹیوں میں ڈگری کے دوران بہت بنیادی چیزیں سکھائی جاتی ہیں جن کی مارکیٹ میں کوئی اہمیت نہیں ہوتی، اس میں طلبا کا بھی کوئی قصور نہیں ہے کہ انہیں کچھ آتا نہیں، جب یونیورسٹی نے کچھ سکھایا ہی نہیں تو کیسے سیکھیں، سخت مایوس ہو چکا ہوں، سوچتا ہوں کہ کسی بھی ملک میں جا کر مزدوری کر لوں کیونکہ پاکستان میں کوئی امید نظر نہیں آ رہی‘۔

پاکستان میں درسگاہیں محض کاروبار ہیں، پروفیسر نجی یونیورسٹی

برین ڈرین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اسلام آباد کی ایک نجی یونیورسٹی کے پروفیسر نے کہا کہ پاکستان میں درسگاہیں محض کاروبار ہیں، جن کا مقصد ڈگری کا ایک صفحہ دینا ہے اور یہاں ایچ ای سی کی یہ نا اہلی ہے کہ کوئی پالیسی ہی نہیں ہے۔

انہوں نے کہاکہ ہمارے ملک میں 20 سال پرانا کورس طلبا کو پڑھایا جاتا ہے، اور وزیٹنگ فیکلٹی کے نام پر کم پیسوں میں فریش ماسٹرز کے طلبا کو یونیورسٹیوں میں بی ایس لیول پر پڑھانے کا موقع دیا جاتا ہے جو طلبا سے گپ شپ میں ہی پورا ٹائم ضائع کر دیتے ہیں اور طلبا کو وہ اساتذہ اس وقت اچھے بھی بہت لگ رہے ہوتے ہیں کیونکہ نہ ان پر سختی ہوتی ہے اور نا ہی پڑھائی کا پریشر، اور اسی طرح ڈگری ختم ہو جاتی یے۔

یونیورسٹیاں کروڑوں کما کر بڑے فخر سے کاغذ کا ایک ٹکڑا تھما دیتی ہیں

انہوں نے کہاکہ یونیورسٹیاں کروڑوں روپے کما کر آخر میں بڑے فخر سے کاغذ کا ایک ٹکڑا ڈگری کے نام پر طلبا کے ہاتھ میں تھما دیتی ہیں، جب تعلیمی نظام ہی خراب ہوگا تو طلبا مارکیٹ میں جا کر کیا کارکردگی دکھائیں گے، پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں اور اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ پاکستان میں ٹاپ کی یونیورسٹیاں ہیں مگر وہ یونیورسٹیاں بھی تو صرف چند ایک ہی ہیں۔

’پاکستان کو اشد ضرورت ہے کہ وہ اپنے تعلیمی نظام میں بہتری لائے ورنہ ہمارا اثاثہ یعنی ہماری یوتھ اور پاکستان کا مستقبل تاریک ہے‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp