پس پردہ کہانی: حماس اسرائیل معاہدہ کیسے ممکن ہوا؟

جمعرات 23 نومبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

فلسطینی  حریت پسند تنظیم حماس کے اسرائیل پر 7 اکتوبر کے حملے اور اسرائیل کے 200 سے زائد اسرائیلی شہریوں کو قیدی بنائے جانے کے بعد قطر کی حکومت نے امریکی حکام سے رابطہ کیا اور ان سے درخواست کی  کہ  قیدیوں کی رہائی کے لیے ایک مختصر مذاکراتی ٹیم تشکیل دیں۔

اب وہ کوشش جو قطر نے شروع کی تھی، بالآخر ایک نتیجے پر پہنچ گئی ہے۔ قطر اور مصر کی ثالثی کی کوشش کا نتیجہ اسرائیل، حماس اور امریکا کی طرف سے جنگ میں وقفے اور دوطرفہ قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کے اعلان کے طور پر سامنے آیا۔

حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ کیسے ممکن ہوا اور کب کیا بات ہوا؟

7 اکتوبرکو کیا ہوا؟

7 اکتوبر کو حماس نے جنوبی اسرائیل میں راکٹوں کی ایک بڑی بیراج فائر کی، جس کی آوازیں تل ابیب اور بیر شیبہ تک سنائی دیے، حماس نے اسرائیل کے 200 سے زائدہ شہریوں کو قیدی بنا لیا۔

حماس کے حملے کے بعد فلسطینی گروہ اسلامی جہاد نے بھی کہا کہ اس نے اسرائیلی فوجیوں کو پکڑ رکھا ہے۔ حماس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے ایک فوٹیج ریلیز کی  جس میں دکھایا گیا کہ اسرائیلیوں کو غزہ کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔

حماس کی کارروائی کے دوسرے دن اسرائیل نے غزہ پر بمباری شروع کر دی جو ہفتوں تک جاری رہی۔ اور تادم تحریر جاری ہے۔

7 اکتوبر کے حماس کے حملے کے بعد سفارتی ردعمل

قطر جو کہ امریکا کا قریبی اتحادی ہے، نے 7 اکتوبر کے فوراً بعد امریکی حکام سے اسرائیلی یرغمالیوں کے بارے میں حساس معلومات شیئر کیں اور ان کی رہائی کے امکانات پر گفتگو کی۔ قطری حکام نے امریکی حکام سے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کے ساتھ خفیہ بات چیت کے لیے ایک مذاکراتی ٹیم تشکیل دی جائے۔

مذاکرات کے لیے خفیہ کوششوں میں امریکی صدر جوبائیڈن کا  دورہ اسرائیل بھی شامل تھا۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے معاہدے تک پہنچنے کے لیے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی اور اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ متعدد بار بات چیت کی۔

امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی ایلچی بریٹ میک گرک اور قومی سلامتی کونسل کے ایک اور اہلکار جوش گیلٹزر کو مذاکراتی ٹیم بنانے کی ہدایت کی، یہ سارے معاملات امریکی خفیہ ایجنسیوں سے خفیہ رکھے گئے، کیوں کہ قطر اور اسرائیل نے انتہائی رازداری کا مطالبہ کیا تھا جس کے بارے میں صرف چند لوگوں کو معلوم ہونا تھا۔

مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی ایلچی بریٹ میک گرک قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن بن جاسم الثانی سے روزانہ ملاقات کرتے رہے اور قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کو رپورٹ کرتے رہے، جبکہ امریکی صدر جوبائیڈن کو بھی روزانہ ا ن معاملات کے بارے میں بریفنگ دی جاتی رہی۔

13 اکتوبر کو کیا ہوا؟

امریکی صدر جوبائیڈن نے نے حماس کی جانب سے قید کیے جانے والے امریکیوں کے اہل خانہ کے ساتھ ایک طویل ملاقات کی۔ انہوں نے اس ملاقات کے بعد کہا کہ یہ لوگ نہیں جانتے کہ ان کے بیٹے، بیٹیاں، شوہر، بیویاں اور بچے کس حال میں ہیں۔ یہ نہایت اذیت ناک امر ہے۔ انہوں نے ملاقات میں شامل لوگوں کو یقین دلایا کہ وہ ان کے پیاروں کو واپس لائیں گے۔

18 اکتوبر، امریکی صدر جوبائیڈن کا دورہ اسرائیل

18 اکتوبر کو جوبائیڈن نیتن یاہو سے بات چیت کے لیے تل ابیب گئے، اس موقع پر نیتن یاہو سے بات چیت میں قیدیوں کی رہائی غزہ میں امداد پہنچانا مرکزی نکتہ رہا۔‘

20 اکتوبر، دو معمر اسرائیلی خواتین رہا

قطر اور مصر کی ثالثی میں 2 معمر اسرائیلی خواتین کی رہا کیا گیا، حماس کے مطابق Yokheved Lifshitz اور Nurit Yitzhak، جسے Nurit Cooper کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ‘انسانی ہمدردی’ کی بنیاد پر رہا کیا گیا۔

85 سالہ لفشٹز نے بعد میں نیوز کانفرنس میں بتایا کہ اغوا کے دوران انہیں چوٹ لگی تھی لیکن قید کے دوران ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا گیا، یاد رہے کہ دونوں خواتین کے شوہر ابھی تک حماس کی قید میں ہیں۔

23 اکتوبر، دو امریکی قیدی رہا

23 اکتوبر کو حماس نے 2امریکی قیدیوں( 17 سالہ نٹالی رانان اور اس کی والدہ 59 سالہ جوڈتھ ) کو رہا کر دیا۔

ان قیدیوں کو انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (آئی سی آر سی) کی مدد سے رفح کراسنگ کے ذریعے مصر منتقل کیا گیا۔ انہوں نے مصر میں اسرائیلی سیکورٹی فورسز سے ملاقات کی، اس ملاقات کے بعد انہیں اسرائیل کے ایک فوجی اڈے پر منتقل کر دیا گیا تاکہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ مل سکیں۔

حکام نے بتایا کہ دونوں امریکیوں کی واپسی نے ثابت کیا کہ قیدیوں کی رہائی ممکن ہے اور جوبائیڈن کو یہ اعتماد دلایا کہ قطر مزید لوگوں کی رہائی میں ثالثی کر سکتا ہے۔

اب مزید قیدیوں کو رہا کروانے کے لیے مذاکرات کا عمل تیز کر دیا گیا،سی آئی اے کے ڈائریکٹر بل برنز نے موساد کے ڈائریکٹر ڈیوڈ بارنیا کے ساتھ باقاعدگی سے بات کرنا شروع کی۔

24 اکتوبر، حماس خواتین اور بچوں کو رہا کرنے پر رضامند

24 اکتوبر کو اسرائیل غزہ میں زمینی کارروائی شروع کرنے کے لیے تیار تھا کہ امریکی حکام کو اطلاع ملی کہ حماس نے خواتین اور بچوں کی رہائی کے معاہدے کے پیرامیٹرز پر اتفاق کیا ہے، جس کا مطلب زمینی حملے میں وقفہ اور التوا ہو گا، امریکی حکام نے اسرائیلی سے بات کی کہ آیا زمینی حملے کو ملتوی کیا جاسکتا ہے۔

حماس نے بیان جاری کیا کہ معلوم نہیں ہے کہ اسرائیلی قیدیوں کو کہاں رکھا گیا ہے، انہیں تلاش کرنے کے لیے وقت چاہیے، کیوں کہ حماس کے علاوہ دیگر گروہوں نے بھی اسرائیلی شہریوں کو اغوا کیا تھا۔

امریکی اور اسرائیلی حکومتوں نے حماس کے اس مؤقف کو مضحکہ خیز قرار دیا۔ اسرائیل نے 3 دن بعد 27 اکتوبر کو غزہ کی طرف پیش قدمی شروع کردی۔

30 اکتوبر، ایک اسرائیلی فوجی بازیاب

اسرائیلی فوج کے مطابق30 اکتوبر کو غزہ کے اندر زمینی چھاپے کے دوران ایک فوجی کو بازیاب کروایا گیا تھا، جس پر حماس کے القسام بریگیڈز کے ترجمان ابوعبیدہ نے کہا کہ بازیاب ہونے والے فوجی کو القسام بریگیڈز نے نہیں پکڑا تھا، یہ ممکن ہے کہ اسے غزہ میں عام شہریوں یا دیگر گروہوں نے پکڑا ہو۔

اس کے بعد امریکی صدر جوبائیڈن معاہدے کے لیے تفصیلی بات چیت میں مصروف ہوگئے، اسرائیل کے حامی مذاکرات کاروں کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ حماس اپنے زیرحراست قیدیوں کی فہرستیں، ان کی شناخت ظاہر کرے اور ان کی رہائی کی ضمانت دے۔

اس کے بعد بھی مذاکرات کا عمل جاری رہا، مواصلاتی رابطہ ممکن نہ تھا، حکام کے مطابق پیغام رسانوں کو اسرائیل اور امریکا بھیجنے سے قبل دوحہ یا قاہرہ سے غزہ اور پھر واپس دوحہ یا قاہرہ بھیجنا پڑتا تھا۔

اب تک معاہدے کی جن شقوں پر اتفاق ہوا تھا ، ان کے مطابق خواتین اور بچوں کو رہا کیا جانا تھا، ساتھ ہی ساتھ اسرائیلیوں سے فلسطینی قیدیوں کی رہائی بھی ہونا تھی۔

اسرائیلیوں کا اصرار تھا کہ ایک ہی مرحلے میں تمام خواتین اور بچے باہر آئیں۔ دوسری طرف امریکا نے قطر کے ذریعے حماس کے پاس موجود خواتین اور بچوں کی زندگی کا ثبوت یا شناختی معلومات مانگ لیں۔

حماس نے کہا کہ وہ پہلے مرحلے میں 50 افراد کو رہا کرے گی، تاہم اس نے قیدیوں کی تفصیلی فہرست پیش کرنے سے انکار کر دیا۔

9 نومبر، سی آئی اے ڈائریکٹر ولیم برنز کی قطری رہنما اور اسرائیلی کی ایجنسی موساد کے اہلکار سے ملاقات

سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز نے دوحہ میں قطری رہنما اور موساد ڈائریکٹر سے ملاقات کی تاکہ قیدیوں کے رہائی کے بارے میں لائحہ عمل طے کیا جا سکے، اس وقت قیدیوں کی رہائی میں اہم رکاوٹ یہ تھی کہ حماس نے واضح طور پر قیدیوں کی شناخت نہیں کروائی تھی کہ اس کے پاس کون کون ہے۔

تین دن بعد جوبائیڈن نے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی کو فون کیا اور مطالبہ کیا کہ 50 اسیروں کے نام یا واضح شناختی معلومات حاصل کی جائیں، جن میں عمر، جنس اور قومیت شامل ہو، کیوں کہ معلومات کے بغیر آگے بڑھنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

جوبائیڈن کی کال کے فوراً بعد حماس نے 50 قیدیوں کی تفصیلات پیش کیں اور کہا کہ وہ کسی بھی معاہدے کے پہلے مرحلے میں ان قیدیوں کو رہا کرے گی۔

14 نومبر، امریکی صدر جوبائیڈن کا نیتن یاہو کو فون

14 نومبر کو امریکا کے صدر جوبائیڈن نے اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کو فون کیا اور حماس سے معاہدہ کرنے پر زور دیا جس پر نیتن یاہو نے اتفاق کیا۔

امریکا کے مشرق وسطی کے نمائندے میک گرک نے اسی دن نیتن یاہو سے اسرائیل میں ملاقات کی، نیتن یاہو نے میک گرگ سے کہا کہ ‘ہمیں اس معاہدے کی ضرورت ہے’ اور جوبائیڈن پر زور دیا کہ وہ قطر کے امیر سے حتمی شرائط پر بات کریں۔

اس کے بعد غزہ میں مواصلاتی نظام کی تباہی کے باعث مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے، جب وہ دوبارہ شروع ہوئے تو امریکی صدر جوبائیڈن سان فرانسسکو میں ایشیا پیسیفک سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے گئے ہوئے تھے۔ جوبائیڈن نے ادھر سے ہی قطر کے امیر کو فون کیا اور ان پر  زور دیا کہ وہ اسرائیل اور حماس کے درمیان معاہدہ کرائیں۔

18 نومبر، امریکی سفیر میک گرک نے قطری وزیراعظم سے ملاقات

مشرق وسطیٰ میں امریکی ایلچی میک گرک نے دوحہ میں قطری وزیراعظم سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد انہوں نے موساد اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر سے فون پر بات کی۔

معاہدے کے پہلے مرحلے میں خواتین اور بچوں کو رہا کیا جانا تھا لیکن مذاکرات کا حتمی مقصد مستقبل میں تمام قیدیوں کی رہائی تھی۔

19 نومبر، میک گرک کی مصر کے انٹیلی جنس کے سربراہ عباس کامل سے ملاقات

19 نومبر کو میک گرک نے قاہرہ میں مصر کے انٹیلیجنس کے سربراہ عباس کامل سے ملاقات کی، اس ملاقات میں یہ بات سامنے آئی کہ حماس نے معاہدے کی تمام شرائط مان لی ہیں لیکن پہلے مرحلے میں حماس 50 قیدی رہا کرے گی جن میں زیادہ بچے اور خواتین شامل ہوں گیے، اس کے بعد ملاقاتیں ہوئیں اور آخر کار معاہدہ طے پا گیا۔

22 نومبر، حماس اور اسرائیل جنگ میں وقفے پر رضا مند

22 نومبر کو اسرائیل اور حماس نے جنگ میں عارضی وقفہ کرنے پر اتفاق کر لیا، جس سے قیدیوں کی رہائی ممکن ہوگی۔ معاہدے پر اتفاق سے قبل اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے امریکی صدر جوبائیڈن کا شکریہ ادا کیا۔

معاہدے کی شرائط کیا ہیں؟

جنگ میں 4 دن وقفہ کیا جائے گا، اس وقفے میں توسیع بھی ہو سکے گی۔

اضافی 10 قیدیوں کی رہائی پر جنگ بندی میں مزید ایک دن کا وقفہ کیا جائے گا۔
اسرائیل اپنی فوجی گاڑیوں کی نقل و حرکت روک دے گا اور غزہ کے شہریوں کو شمالی غزہ سے جنوبی غزہ کی طرف ہجرت کرنے دی جائے گی۔

انسانی حقوق کے کارکنان کو ایندھن اور دیگر امداد غزہ میں پہنچانے کی اجازت دی جائے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp