پاکستان کے ہندوکش پہاڑوں میں واقع، دور افتادہ وادی کیلاش ایک مشہور سیاحتی مقام ہے لیکن طالبان عسکریت پسندوں کے ایک حالیہ حملے نے وہاں کے منفرد باسیوں کو اپنے مستقبل کے حوالے سے کافی خوفزدہ کردیا ہے۔
ایک کیلاشی چرواہے نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی ورلڈ کو بتایا کہ صبح کے 4 بجے تھے جب انہوں نے پگڑیاں پہنے، کمر پر بیگ اٹھائے، ہتھیاروں اور گولیوں کی بیلٹوں کے لدے پہاڑ سے نیچے آتے دیکھا، وہ اپنے والد، چچا اور ایک دوست کے ساتھ بھیڑ بکریوں کو قریبی چراہ گاہ لے جا رہا تھا جب عسکریت پسندوں نے ان کی وادی پر حملہ کیا۔
’ ہر چٹان اور ہر درخت کے پیچھے، ہر جگہ طالبان تھے، وہ 2 سو سے زائد رہے ہوں گے، ایک مجھ سے چند قدم کے فاصلے پر تھا، ہم بڑے پتھروں کے نیچے 48 گھنٹے تک چھپے رہے۔‘
صورتحال کا اندازہ ہوتے ہی پاکستانی حکام نے کیلاش وادی میں فوج بھیجی اور بعد ازاں بتایا کہ 2 روز تک جاری رہنے والی لڑائی میں 5 سیکیورٹی اہلکار شہید اور کم از کم 20 طالبان عسکریت پسند مارے گئے۔
وادی میں منڈلاتے سینکڑوں فوجیوں، فوجی گاڑیوں، ڈرونز اور حملہ آور ہیلی کاپٹروں کو یاد کرتے ہوئے دو بچوں کی ماں شائرہ کا کہنا ہے کہ وہاں ایک غیر معمولی خاموشی تھی۔ ’ہر کوئی پریشان اور خوفزدہ تھا۔ یہ ایک جنگی علاقے کی طرح محسوس ہوتا تھا۔‘
پاکستان میں حالیہ مہینوں میں اس نوعیت کے حملوں میں شدت آئی ہے، اگرچہ ستمبر میں ہونے والے اس حملے نے کیلاش کے مکینوں کو حیرت سے دوچار کیا تھا کیونکہ ان کے لیے یہ ایک غیر متوقع حملہ تھا لیکن حکومتی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ کم از کم ایک ہفتہ قبل ایک ممکنہ حملے کا اشارہ دینے والی ایک فون کال کو روکا گیا تھا۔
پاکستانی طالبان یعنی کالعدم ٹی ٹی پی نے سرحد پار افغانستان سے کیلاش میں مذکورہ حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی، پاکستان مسلسل افغانستان کے حکمراں طالبان پر پاکستان کی سرحد کے ساتھ واقع صوبوں میں کالعدم ٹی ٹی پی کے ارکان کو پناہ دینے کا الزام عائد کرتا رہا ہے۔
2021 میں طالبان کے کابل پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے سرحد پار سے ہونے والے حملوں میں کیلاش پر حملے کو پاکستان اپنے خلاف ایک اہم ترین دہشت گرد کارروائی کے طور پر دیکھتا ہے، تاہم طالبان حکومت نے عسکریت پسندوں کو پناہ گاہ فراہم کرنے کے پاکستانی الزامات کی تردید کی ہے۔
پاکستان میں حکام کا خیال ہے کہ اس حملے کا مقصد اسٹریٹجک لحاظ سے اہم وادی کیلاش کا کنٹرول حاصل کرنا تھا، ضلع کے ڈپٹی کمشنر محمد علی کہتے ہیں کہ کیلاش کے کنٹرول سے ٹی ٹی پی کو وہ کچھ ملتا جو وہ چاہتے ہیں، جس سے لوگوں میں خوف پیدا ہوتا اور دنیا کو یہ پیغام جاتا کہ وہ مضبوط ہیں، لیکن ہماری سیکیورٹی فورسز نے ایسا نہیں ہونے دیا۔
اس حملے نے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے 400 کلومیٹر دور صدیوں سے آباد مقامی کیلاشی برادری کو تناؤ کا شکار کر دیا ہے، اس ثبوت کے باوجود کہ وہ جنوبی ایشیا کے مقامی ہیں، وادی کے مکینوں کا دعویٰ ہے کہ وہ سکندر اعظم کی نسل سے ہیں- کیلاشی لوگ اپنی ثقافت، مذہب اور روایات کے لیے مشہور ہیں جو پاکستان کی مسلم اکثریت سے جداگانہ شناخت رکھتی ہیں۔
لیکن وہ اپنے رقص اور موسیقی میں جس خوشی کا اظہار کرتے ہیں اس پر خوف، بے یقینی اور مایوسی کا سایہ ہے، اپنی ایک سالہ بیٹی کو جھولا دیتے ہوئے شائرہ نے بتایا کہ وہ اپنی ثقافت اور منفرد مذہب کو بچانے کے لیے یونیورسٹی کی ڈگری مکمل کرنے کے بعد کیلاش واپس آئی تھیں۔
یہ کمیونٹی دیوتاؤں اور دیویوں کی پوجا کرتی ہے اور موسموں اور کھیتی باڑی کے ساتھ ان کے روابط کو نشان زد کرنے کے لیے تہواروں کا انعقاد کرتی ہے۔ ان اوقات میں خواتین اپنی محبت کا اعلان کر سکتی ہیں، فرار ہو سکتی ہیں یا اپنی شادیاں بھی ختم کر سکتی ہیں۔
لیکن چھوٹے گھروں کی بھول بھلیوں میں رہنے والے یہاں کے لوگوں کو مسلم اور عیسائی دونوں گروہوں کی طرف سے جبری تبدیلی مذہب کے چیلنجوں اور دھمکیوں کا بھی سامنا ہے۔
اور اب انہیں خدشہ ہے کہ تازہ ترین حملہ خطرات کی ایک نئی لہر کی نمائندگی کرتا ہے جو ان کی برادری کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے، شائرہ سمیت بیشتر لوگ سوچ رہے ہیں کہ ان کے اختیارات کیا ہیں؟ طالبان نے دوبارہ حملہ کیا تو وہ کہاں جائیں؟
شائرہ کہتی ہیں کہ سب نے کہا کہ طالبان ہمارے یعنی کیلاشیوں کے لیے آئے ہیں، وہ ہمیں مار ڈالیں گے یا ہمیں مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کریں گے، ہمارے پاس چھوڑنے کے لیے وسائل نہیں ہیں، اس لیے ہمیں کیلاش میں ہی رہنا ہے، مردہ یا زندہ!
انہیں خدشہ ہے کہ اس طرح کے حملوں سے ان کا روزگار بھی متاثر ہو سکتا ہے، کیلاش وادی ہر سال پاکستان اور اس سے باہر سے سیاحوں کی ایک قابل ذکر تعداد کو راغب کرتی ہے، اس حالیہ تصادم نے علاقے میں سیاحت اور چراہ گاہ دونوں کو ٹھپ کر دیا ہے، کیونکہ وادی کئی دنوں تک بند رہی تھی۔
کیلاش سے غیر ملکی سیاحوں کو نکال لیا گیا تھا، مقامی لوگوں کو دور رہنے کی ہدایت کی گئی اور وادی کی طرف جانے والی تمام سڑکوں کو بند کر دیا گیا تھا، فوجیں تعینات کر دی گئی تھیں اور چراگاہیں نو گو ایریا بن گئے تھے۔
کیلاش کمیونٹی لیڈر کائی میرا کہتی ہیں کہ سیاحوں سے ہم سب کو فائدہ ہوتا ہے، اور اس حملے کے بعد ہمیں ضروری اشیاء کی قلت کا سامنا کرنا پڑا۔’ہم اپنے مویشیوں کو چراگاہوں تک لے جانے سے بھی قاصر تھے اور آمدنی کا مکمل نقصان ہوا۔
کیلاش پر حملے کے بعد، پاکستان نے افغانستان کے ساتھ دو اہم سرحدی گزرگاہوں کو بند کرنے کا اعلان کردیا تھا، جس کے نتیجے میں تجارتی آمدنی میں کافی نقصان ہوا اور ہزاروں لوگ کئی دنوں سے سرحدی گزرگاہوں پر پھنسے ہوئے تھے۔
کیلاش پر حملے کے وقت چٹان کے نیچے 48 گھنٹے تک چھپنے رہنے کے بعد گاؤں واپس پہنچنے والے مکین ابھی تک خوف زدہ ہیں۔ ’عسکریت پسند ماضی میں سرحد پار کرتے تھے، لیکن وہ بندوق کی نوک پر ہمارے مویشی چھین کر واپس چلے جاتے تھے، اس بار وہ ہماری وادی چھیننے آئے تھے اور مجھے ڈر ہے کہ وہ دوبارہ آئیں گے۔‘
ڈپٹی کمشنر نے انہی خوف زدہ مکینوں کو یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ اگرچہ خوف کم ہونے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے، تاہم حکومت نے سرحد کو مضبوط بنانے، چوکیوں کی تعداد بڑھانے اور سرحدی حفاظت کو مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
شائرہ اپنے بچے کو اچھی طرح سوتے ہوئے چھوڑ کر کھیتوں میں سردیوں کے موسم سے پہلے فصلیں اکٹھی کرنے کے لیے چلی جاتی ہے: “جنگ جنگ ہے، چاہے وہ طالبان ہوں یا کوئی اور، آخر میں یہ ہم ہیں، غیر مسلح لوگ، جو متاثر ہوں گے اور مریں گے۔‘