سلمان صفدر نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ شاید جنرل مشرف کے ورثا، اس مقدمے کی اہمیت کو نہیں سمجھ رہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ان کے ورثا کو اپیلوں میں دلچسپی نہیں تو ہم خارج کر دیں گے۔ بہرحال اس دوران جنرل مشرف کے قانونی ورثا سے رابطے کے لیے ان کے وکیل سلمان صفدر کو گزشتہ روز ایک اور ہفتے کی مہلت مل گئی ہے۔
کیا دائرہ اختیار کی بنیاد پر جنرل مشرف کی سزائے موت کا فیصلہ بحال ہو سکتا ہے؟
12 جنوری 2020 کو جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے ایک بینچ نے جنرل مشرف کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے کا فیصلہ کرنے کے لیے بنائی گئی خصوصی عدالت کو غیر آئینی قرار دیا تھا، جب خصوصی عدالت جنرل مشرف کو سزائے موت سنا چکی تھی۔
جنرل مشرف نے سزائے موت جبکہ سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، حافظ عبدالرحمٰن انصاری اور توفیق آصف ایڈووکیٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کر رکھی ہیں۔ جنرل مشرف کے علاوہ باقی 3 اپیل کنندگان کا ایک موقف یہ بھی ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ اس لیے بھی کالعدم قرار دیا جائے کیونکہ یہ اس کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا تھا۔
22 نومبر کی سماعت میں اس نقطے پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ درست بھی ہو تو دائرہ اختیار نہ ہونے پر برقرار نہیں رہ سکتا، لاہور ہائی کورٹ نے دائرہ اختیار کیسے استعمال کیا وہ حیران کن ہے۔
دائراختیار نہیں تھا پر سب ایک صفحے پر تھے
خصوصی عدالت جو ہائیکورٹس کے ججز پر مشتمل تھی اور اس میں لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج بھی شامل تھے، اس بارے میں بات کرتے ہوئے چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ لاہور ہائی کورٹ نے ہائی کورٹ ہی کے 3 ججز کے خلاف کیسے رٹ جاری کر دی؟ اسی مذکورہ سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ کیا دائرہ اختیار پر وفاقی حکومت نے بھی سوال نہیں اٹھایا؟ تو توفیق آصف کے وکیل، حامد خان ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ اس وقت کسی نے بھی کچھ نہیں کہا، سب ایک ہی صفحے (سیم پیج ) پر تھے، اس پر جسٹس منصور علی شاہ بولے کہ عدالتی معاونین بھی ایک صفحے پر ہی تھے۔
جنرل مشرف کی اپیل پر اب تک فیصلہ کیوں نہ ہوا؟
پاکستان کے آنجہانی سابق صدر اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف جو اس سال 5 فروری کو طویل علالت کے بعد دبئی کے ایک ہسپتال میں انتقال کر گئے تھے۔ بعد میں ان کی میت تدفین کے لیے کراچی لائی گئی اور پورے فوجی اعزاز کے ساتھ ان کی تدفین عمل میں آئی۔
مزید پڑھیں
17 دسمبر 2019 کو سنگین غداری مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت نے انہیں سزائے موت سنائی تھی۔ اس سزا کے خلاف جنرل مشرف کی اپیل اب 4 سال بعد بھی زیرالتواء ہے اور موجودہ چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی گزشتہ 3 سماعتوں پر بارہا یہ سوال اٹھا چکے ہیں کہ یہ اپیلیں 4 سال سے زیر التواء کیوں ہیں، ان پر فیصلہ کیوں نہیں ہوا اور ان اپیلوں کے حوالے سے جلد سماعت کی درخواستیں دائر کیوں نہ کی گئیں؟۔ 11 نومبر کو اس مقدمے کی پہلی سماعت کے بعد چیف جسٹس نے اپنے فیصلے میں تحریر کیا کہ اپیل کا حق ہر مجرم کو حاصل ہے، 3 سال 8 ماہ گزرنے کے باوجود اپیل کا سماعت کے لیے مقرر نہ ہونا بدقسمتی ہے۔ عدالت کے بروقت اقدام نہ کرنے کا نقصان کسی سائل کو نہیں ہونا چاہیے۔
جنرل مشرف کی اپیل میں کیا ہے؟
جنرل مشرف نے اپنی اپیل میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی ہے کہ ان کو سنائی گئی سزا آئین اور ضابطہ فوجداری کی خلاف ورزی ہے اس لیے اس کو ختم کیا جائے، جنرل مشرف اپنی اپیل میں کہتے ہیں کہ مجھے مبینہ طور پر ایک آئینی جرم میں مکمل طور پر غیر آئینی طریقے سے سزا سنائی گئی۔
خصوصی عدالت کی سزا
17 دسمبر 2019 کو وفاقی حکومت کی جانب سے بنائی گئی خصوصی عدالت نے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں جنرل پرویز مشرف کو 3 نومبر 2007 کو ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ اور آئین کو معطل کرنے کے جرم میں، آئین کی آرٹیکل 6 سنگین غداری کے تحت سزائے موت سنائی تھی۔ خصوصی عدالت میں سندھ ہائی کورٹ کے جج، جسٹس نذراکبر اور لاہور ہائی کورٹ کے جج شاہد کریم بھی شامل تھے۔
پس منظر
اس سے قبل 31 جولائی 2009 کو اس وقت کے چیف جسٹس، جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 14 رکنی بینچ نے جنرل مشرف کے 3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی کے نفاذ کے اقدام کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا تھا۔ جبکہ اس فیصلے کی بنیاد پر 5 اپریل 2013 کو سپریم کورٹ نے ایک درخواست منظور کر لی جس میں جنرل مشرف کے خلاف سنگین غداری الزامات کے تحت مقدمہ چلانے کی درخواست کی گئی تھی۔ 24 جون 2013 کو اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے قومی اسمبلی میں بیان دیا کہ وہ عدالتِ عظمیٰ سے درخواست کریں گے کہ جنرل مشرف کا سنگین غداری کے الزامات کے تحت ٹرائل کیا جائے، 18 نومبر 2013 کو سپریم کورٹ نے مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت کی درخواست منظور کر لی جس میں سنگین غداری الزامات کے تحت مقدمہ چلانے کی استدعا کی گئی تھی۔ جب 2 جنوری 2014 کو جنرل مشرف کو خصوصی عدالت لے جایا جا رہا تھا تو چک شہزاد میں ان کے فارم ہاؤس سے انہیں امراض دل کے ہسپتال لے جایا گیا۔