مقتدرہ کے لاڈلے

جمعہ 24 نومبر 2023
author image

احمد ولید

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

الیکشن سے قبل مسلم لیگ نواز کے قائد کو ایک نئی مشکل کا سامنا ہے کہ وہ اپنے اوپر لگنے والے ’لاڈلا‘ کے ٹھپے سے کیسے جان چھڑائیں۔ نواز شریف نے لندن سے خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے پاکستان آنے سے قبل اپنے اسٹیبلشمنٹ مخالف روایتی بیانیے کی طرف ایک قدم بڑھایا اور کہا کہ وہ واپس آکر ان کی حکومت کے خاتمے کے ذمہ دار اور پس پردہ عناصر کو کٹہرے میں کھڑا کریں گے۔ مگر ان کے بھائی شہباز شریف نے فوری لندن پہنچ کر بھائی جان کو سمجھایا کہ فی الحال اس بیانیے کوچھوڑیں اور وطن واپس آکر الیکشن کی تیاری کریں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کو جب محسوس ہوا کہ طاقت کے مراکز کا سارا جھکاؤ مسلم لیگ نواز کی طرف جا چکا ہے اور اگلے الیکشن میں کامیابی کے لیے سہولت کاری کی جارہی ہے تو بلاول بھٹو نے مسلم لیگ نواز کو آڑے ہاتھوں لینا شروع کر دیا۔ ایک تقریر میں انہوں نے کہا کہ لاڈلا بننا ہے تو عوام کا لاڈلا بنیں اور وہ کٹھ پتلی اور ’سلیکٹڈ‘ راج قبول نہیں کریں گے۔

لاہور میں مسلم لیگ نواز کے ایک اجلاس میں غور و خوض کیا گیا کہ لاڈلا کے ٹیگ سے کیسے پیچھا چھڑایا جائے مگر مناسب حل تلاش نہیں کیا جا سکا۔ اب مسلم لیگ نواز کے مختلف رہنما لاڈلا کہلائے جانے کے جواب میں مختلف توجیہحات پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں مل پا رہی۔

پیپلز پارٹی شکایت کر رہی ہے کہ الیکشن سے قبل انہیں لیول پلیئنگ فیلڈ میسر نہیں ہے جبکہ مسلم لیگ نواز کو اگلی حکومت پلیٹ میں رکھ کر دینے کی کوششیں کی جارہی ہیں جیسے عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا گیا۔

مسلم لیگ نواز کا دعویٰ ہے کہ وہ عمران خان کے خلاف تاریخی عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد پی ڈی ایم حکومت کا حصہ نہیں بننا چاہتی تھی مگر انہوں نے ملک کی معاشی بقا کی خاطر اقتدار سنبھالا اور سخت ترین معاشی فیصلے کیے جس کی وجہ سے انہیں عوام کی شدید ترین تنقید کا سامنا کرنا پڑا جس کے ازالے کے لیے انہیں سخت تگ و دو کرنا پڑ رہی ہے۔ شاید اس سیاسی نقصان کے عوض انہیں دیگر سیاسی جماعتوں پر فوقیت دی جارہی ہے۔ ان کے خلاف عمران خان دور میں بننے والے تمام کیس ختم کیے جارہے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ ان کا اتحاد بنایا جا رہا ہے تاکہ ان کے لیے اقتدار حاصل کرنے کا راستہ ہموار کیا جاسکے۔

ایسے میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر مخالف جماعتیں اپنی الیکشن مہم میں مسلم لیگ نواز پر خوب تنقید کررہی ہیں۔

مسلم لیگ نواز سمجھتی ہے کہ عمران خان دور میں ہونے والی انتقامی کارروائیوں، ان کے خلاف چور ڈاکو کے القابات اور پی ڈی ایم حکومت کے دوران غیرمقبول معاشی فیصلوں نے ان کی جماعت کو خاصی زک پہنچائی ہے اور اس کا فائدہ صرف پاکستان تحریک انصاف نے اٹھایا۔ اب مسلم لیگ نواز ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں انہیں اسٹیبلشمنٹ کی پوری حمایت حاصل ہونے کے باوجود دوبارہ عوامی پذیرائی حاصل کرنے میں خاصی دشواری کا سامنا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر بدترین کارکردگی دکھانے والی عمران حکومت کو مدت پوری کرنے دی جاتی تو آج انہیں دوبارہ حکومت حاصل کرنے میں کوئی دشواری کا سامنا نہ ہوتا۔

پچھلے 50 سال بالخصوص پچھلی 3 دہائیوں سے سیاسی جوڑ توڑ، جمہوری عمل میں بلا روک ٹوک مداخلت اور اپنے پسندیدہ سیاستدانوں کو اقتدار میں لانے کی جدوجہد اور ناپسندیدہ سیاسی رہنماؤں کو حکومت سے دور رکھنے کے لیے ہر ممکن کوششیں کی جاتی رہیں۔ نتیجتاً ملک سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہوتا گیا اور آگے بڑھنے کی بجائے ہم پیچھے جاتے گئے۔ آج عوام انتہائی مایوسی اور ناامیدی کے عالم میں ڈوب چکے ہیں۔ انہیں اس بے چینی کی کیفیت سے نکالنے کے لیے ایک لمبا عرصہ درکار ہوگا اور ایسے حالات پیدا کرنا ہوں گے کہ انہیں یقین ہو جائے کہ الیکشن میں کامیابی کے لیے ملک کی سیاسی جماعتوں کی نگاہیں مقتدرہ کی چھتری کی بجائے عوامی رائے اور ان کی فلاح و بہبود کی طرف ہوں اور وہ مقتدرہ کے بجائے عوام کے لاڈلے بنیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp