کچھ اشارے بہت واضح ہیں جن سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آئندہ دنوں میں سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ جوں جوں الیکشن کا وقت قریب آتا جا رہا ہے پیپلز پارٹی لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ہونے کی تان بڑھاتی جا رہی ہے۔ جب کہ مسلم لیگ (ن) اس حوالے سے بہت مطمئن نظر آتی ہے چونکہ ان کو بھی واضح آثار نظر آ رہے ہیں کہ سیاست کا اونٹ ان کے اقتداری خیمے کی طرف کروٹ لے رہا ہے۔ اسی اثناء میں سینئر صحافی اور کالم نگار سہیل وڑائچ نے ایک نیا بیانیہ تشکیل دینا شروع کر دیا ہے۔ جس کا لُبِ لباب یہ ہے کہ نواز شریف یک جماعتی نہیں قومی رہنما کا کردار ادا کرتے ہوئے 9 مئی کے واقعات کے حوالے سے عمران خان ،ان کی پارٹی اور کارکنوں کے لئے عام معافی کا اعلان کروا کر آگے بڑھیں تا کہ ملکی سیاست میں میثاق جمہوریت جیسے تاریخ ساز معاہدے کے بعد برداشت، رواداری اور تحمل کی طرف دوسرا قدم اُٹھایا جا سکے۔
یاد رہے کہ سہیل وڑائچ ٹی وی کے عہد ساز اینکر بننے سے پہلے ہی پرنٹ میڈیا کے لئے سیاست دانوں اور اہم شخصیات کے تسلسل سے یاد گار انٹرویوز کر کے اپنی ایک علیحدہ شناخت رکھتے تھے جس کی وجہ سے ان کی رسائی پاکستان کے تمام بڑے سیاسی رہنماؤں تک تھی۔ پرائیویٹ میڈیا کے آنے کے بعد انھوں نے اپنے منفرد انداز کی بدولت بہت ناموری کمائی۔ وہ مشکل سوالات بھی اپنے ملائم لہجے میں کر جاتے ہیں۔ شاید ہی کبھی کسی نے ان کے سوال کا برا منایا ہو۔ وہ بہت خوش قسمت ہیں کہ عام لوگ کیا ٹی وی پروگراموں میں بھی ان کے لب و لہجے کی نقل اتاری جاتی ہے۔ روائتی ٹی وی، ریڈیو شاید کبھی بھی ان کو بطور میزبان یا اینکر نہ لیتے۔
سہیل وڑائچ کے بارے میں عمومی تاثر یہی تھا کہ وہ سارے گھروں کو راضی رکھتے ہیں اور وہ متنازعہ امور پر گفت گو یا تحریر سے اجتناب کرتے ہیں ۔ نواز شریف کی پچھلی وزارتِ عظمٰی کے دوران جب مقتدر حلقے ان کی مشکیں باندھنے میں مصروف تھے تو سہیل وڑائچ نے ایک بولڈ کالم “یہ کمپنی نہیں چلے گی” کے عنوان سے لکھا۔ اس کے بعد آج تک انھوں نے مُڑ کر نہیں دیکھا۔ بعد ازاں ان کے کئی اسی طرز کے بولڈ کالم آئے۔ پچھلے کچھ عرصے سے وہ کالم نہیں لکھ رہے تھے۔ مگر ابھی انھوں نےکالم نگاری کے میدان میں دوبارہ اپنی دھواں دھار انٹری ڈالی ہے۔ ایک طرف جہاں لوگ نواز شریف کے چوتھی مرتبہ وزیرِ اعظم بننے کی امید میں استقبال کے لئے صف بندی میں مصروف ہیں تو دوسری طرف ہوا کے مخالف رُخ پر سہیل وڑائچ نے 9 مئی کے واقعات کا ذمہ دار سمجھے جانے والوں بشمول عمران خان کے لیے عام معافی دلوانے کے لیے نواز شریف کا کرادر خود ہی متعین کرنا شروع کر دیا، کہ وہ پہل کریں اور ایک پارٹی رہنما سے آگے بڑھ کر قومی مدبر اور رہنما کا کردا ر ادا کریں۔
جب کہ دوسری طرف حرف و قلم کے شناور اور مسلم لیگ (ن) کے دماغوں میں سے ایک جناب عرفان صدیقی سہیل وڑائچ کے بیانیے کے رد کو میدان میں اُترے ہیں۔ دونوں طرف سے کالموں کی حد تک معاملہ تُو تُو، میں میں تک پہنچ گیا ہے۔ عرفان صدیقی کا کہنا یہ ہے کہ “نواز شریف سے نہیں”چابی برداروں” سے رجوع کریں”
سہیل وڑائچ جو بیانیہ بنا رہے ہیں یا نواز شریف سے جو امیدیں وابستہ کر رہے ہیں ان کی آزادانہ صحافت کا تقاضا یہی تھا۔ انھوں نے عامر خان کی طرح سوچا ہوگا کہ مارکیٹ کا کام تو بہت کر لیا۔ اب کچھ ایسا کام بھی کرنا چاہیے جس سے وہ خود بھی اطمینان پا سکیں اور انھیں لگے کہ کوئی مثبت حصہ معاشرے کی بہتری میں ڈالا ہے۔ جب کہ دوسری طرف عرفان صدیقی بھی اپنی طرف سے کچھ غلط نہیں کر رہے بلکہ وہ اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔
اس بات میں تو کوئی دوسری رائے نہیں کہ عمران خان کا دورِ حکومت نواز شریف، ان کے خاندان اور پارٹی کے لیے ایک ڈراؤنا خواب تھا۔ ظاہر ہے اس دور کی کڑواہٹ ابھی تک مسلم لیگ (ن) اس کے رہنماؤں اور بالخصوص شریف خاندان کے لب و لہجے سے جھلکتی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے حلقوں میں تو ایک اطمینان اور شانتی کا دور دورہ ہے ۔ بظاہر “چابی بردار” ہی عمران خان اور ان کی تحریک ِ انصاف کی مشکیں کس رہے ہیں۔ امید یہ کہ الیکشن تک ” گلیاں سُنجیاں” ہو جائیں گی اور نواز شریف “مرزا یار” کی شکل میں اکیلے ہی مالک و مُختارکے طور پر اقتدار کی راہ داریوں کی اور گامزن ہوں گے۔
کوئی مانے یا نہ مانے پاکستان، پاکستانی سیاست اور مقتدرہ ابھی ایک سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے اثرات سے کما حقہ ُ نہیں نکل سکا۔ نواز شریف بھی بھٹو کی پھانسی کی طفیل بچے اور عمران خان بھی اسی پھانسی کے صدقے بچیں گے۔ سیاست میں مخالفت سیاست کا حُسن ہوتا ہے مگر اسے ذاتی دشمنی میں تبدیل کر لینا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ابھی آپ فکری طور پر “میچؤر” نہیں ہوئے۔ سیاست کوئی جھوٹ فریب یا دھوکہ دہی کا نام نہیں بلکہ سیاست معاملہ فہمی اور فہم و فراست اور راستہ نکالنے کا نام ہے۔
لندن میں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے مابین ہونے والا چارٹر آف ڈیمو کریسی ہی دراصل مشرف کی رُخصتی کی بُنیاد بنا اور اسی معاہدے کے باعث سیاسی رستے نکلے اور جمہوریت بحال ہو سکی۔ اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں محترمہ بے نظیر بھٹو نے سیاست اور جمہوریت کے لئے اپنی جان تک قربان کر دی۔ آصف علی زرداری اور نواز شریف نے بھی سویلین بالا دستی کے لئے بہت قربانیا ں دی ہیں اور بڑی حد تک اسے حاصل بھی کیا۔
بد قسمتی سے عمران خان نے اقتدار ملنے پر اور اقتدار سے محرومی کے بعد اپنے مزاج اور سیاسی عدم سوجھ بوجھ کے باعث اس سویلین بالا دستی کے سفر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ جب میاں شہباز شریف نے بھی اپنی اُفتادِ طبع کے باعث تقریباً ویسا ہی کردار ادا کیا ہے۔
ہم ساری خرابیوں کی ذمہ داری مقتدرہ کے کندھوں پر ڈال کر فارغ نہیں ہو سکتے۔ جو سیاست دانوں کا کردار ہے وہ تو انھوں نے ہی ادا کرنا ہوتا ہے۔ کاٹ ڈالو، مار ڈالو کی فضاء میں سہیل وڑائچ نے اگر ایک ایسی بات کی ہے جو وزن اور وژن رکھتی ہے تو اس کو فوراً مسترد کرنے کے بجائے ایک لمحے کے لئے رک کر غور کرنے میں کیا ہرج ہے۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن سیاسی زندگی میں ایسے مواقع کم ہی آتے ہیں جہا ں آپ کا ایک فیصلہ آپ کو ایک جماعت کی بجائے قوم کا لیڈر بنا دیتا ہے۔ پرویز رشید جیسے لوگوں نے فکری محاذ پر نواز شریف کو مضبوط کیا اور ان کی نظریاتی پرداخت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ عرفان صدیقی بھی اپنا سا ایک کردا تو ادا کر رہے ہیں اور (ن) لیگ کی منشور کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں مگر اب بھی وہ اصل طاقت کا مر کز “چابی برداروں” کو ہی سمجھتے ہیں۔
طاقت کا مرکز بے شک وہی ہیں اور دنیا جانتی ہے کہ نواز شریف کو بھی وہی ایک زمانے میں لائے تھے مگر وقت کے ساتھ نواز شریف نے سیکھا اور اپنا رستہ خود بنایا۔ اگر چوتھی مرتبہ بھی نواز شریف اسی طرح وزیرِ اعظم بنیں گے جیسے 2018ء میں عمران خان کو بنایا گیا تھا تو پھر عوام اور سہیل وڑائچ جیسے آزاد صحافیوں کا سوال کرنا تو بنتا ہے یا نہیں کہ ہم کب سویلین بالا دستی کی طرف ایک اور قدم بڑھا کر اپنی راہ خود متعین کریں گے یا کہ دائروں کے سفر میں مقید رہیں گے؟