کراچی کی راشد منہاس روڈ پر واقع شاپنگ مال میں بھڑکتے شعلوں نے 10 زندگیوں کے چراغ گل کر دیے جبکہ 7کی حالت تشویشناک ہے۔ ریسکیو آپریشن میں 50 افراد کو ریسکیو کیا گیا ہے۔ جاں بحق افراد کی تعداد میں اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔ آگ پر 3 گھنٹوں بعد قابو پایا جاسکا۔
فائر بریگیڈ حکام کے مطابق آگ شاپنگ مال کی دوسری منزل پر لگی جو چوتھی منزل تک پہنچ گئی، درجنوں دکانیں جل کر راکھ میں بدل گئیں۔ آگ کی شدت کے باعث عمارت کے شیشے بھی ٹوٹ گئے۔ دھواں بھرنےکےباعث فائر فائٹرز کو آگ بجھانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔
شاپنگ مال میں لگی آگ سے مرنے والوں میں بیشتر نوجوان شامل ہیں، جن کی عمریں 22 سے 43 برس کے درمیان تھیں۔ مرنے والے زیادہ تر افراد رات کی شفٹ میں سافٹ ویئر ہاؤسز میں کام کرتے تھے۔
مزید پڑھیں
چیف فائر آفیسر مبین احمد کی عمارت کی تعمیر میں بے قاعدگیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ اس عمارت میں 2 سال قبل بھی آگ لگی تھی، متاثرہ عمارت کی بجلی بند کرنے سے ہر طرف اندھیرا ہو جاتا ہے جس سے لوگوں کو باہر نکلنے میں مشکل پیش آئی، ہنگامی صورتحال میں فائر سیفٹی آلات کی موجودگی سے متعلق عمارت کی تفصیلی چیکنگ کے بعد پتا چلے گا۔
آگ پر قابو پانے کے لیے فائر بریگیڈ کی 12 گاڑیوں، 50 فائر فائٹرز اور 2 اسنارکل نے حصہ لیا۔ نگراں وزیراعلیٰ سندھ نے شاپنگ مال میں آگ سے جانی نقصان پر اظہار افسوس کرتے ہوئے زخمیوں کو ہر ممکن سہولتیں فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔
آگ ممکنہ طور پر شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگی، فائر ریسکیو کمانڈر ہمایوں خان
فائر ریسکیو کمانڈر ہمایوں خان نے میڈیا کو بتایا کہ شاپنگ مال میں آگ ممکنہ طور پر شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگی۔ شاپنگ مال میں آگ بجھانے کا نظام موجود نہیں تھا۔ سینٹرلی ایئرکنڈیشنڈ ہونے کے باعث ہوا کے اخراج کا راستہ نہیں تھا۔
فائر ریسکیو کمانڈر کا مزید کہنا تھا کہ شاپنگ مال میں کال سینٹرز 24 گھنٹے کام کرتے ہیں۔ 50 افراد کو ریسکیو کرنے میں کامیاب رہے۔
عمارت میں کوئی ہنگامی راستہ نہیں تھا، مکمل تحقیقات کی جائیں گی۔ میئر کراچی مرتضی وہاب
میئر کراچی بیرسٹر مرتضی وہاب نے کہا ہے کہ آگ پر قابو پالیا گیا ہے، کے ایم سی کے محکمہ فائر نے عمارت میں آتشزدگی کے واقعے میں 9 اموات کی تصدیق کی ہے، میتوں کو مختلف اسپتالوں میں منتقل کردیا گیا ہے۔ فائر حکام نے درجنوں افراد کو بحفاظت عمارت سے ریسکیو کیا ہے۔ عمارت میں ریسکیو کا عمل جاری ہے۔ عمارت میں کوئی ہنگامی راستہ نہیں تھا۔ واقعہ کی مکمل تحقیقات کی جائیگی۔
یاد رہے کہ چند روز قبل ہی کراچی میں منعقدہ سمپوزیم میں سٹی پلانرز، انجینئرز اور بلڈنگ پلانز کے ماہرین نے اس بات پر توجہ دلائی تھی کہ کراچی کے قریباً 90 فیصد رہائشی، تجارتی اور صنعتی عمارتوں میں آگ سے بچاؤ اور آگ بجھانے کا نظام موجود نہیں ہے۔