مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں واقع پاکستان کا دارلحکومت اسلام آباد بظاہر تو سرسبز و شاداب شہروں کی صف میں شامل تھا لیکن اب فضائی آلودگی کے انڈکس میں یہ بھی اپنا نام غیر صحتمند شہروں میں درج کروا چکا ہے۔
ہوا میں آلودگی کے معیار میں تبدیلی کے باعث اسلام آباد اور راولپنڈی بھی خطرناک حدوں کو پار کر چکے ہیں۔ پچھلے ہفتے اسلام آباد آلودہ ہوا کے معیار کے انڈیکس پر 154 درجہ حاصل کر چکا ہے، جبکہ راولپنڈی اس انڈکس پر 180 درجہ پر رپورٹ ہوا، جس کے بعد دونوں شہروں کو ‘غیر صحتمند’ زمرے (151-200) میں درج کر دیا گیا ہے۔
اسلام آباد کو سر سبز ہونے کے باعث نظر انداز کیا گیا
اس سے قبل ماضی میں اسلام آباد کو فضائی آلودگی کے انڈکس پر اس تاثر کے باعث نظر انداز کیا جاتا رہا ہے کہ ملک کا دارالحکومت تو سرسبز اور درختوں سے ڈھکا ہوا ہے اس لیے یہاں آلودہ ہواؤں کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اب ہوا میں آلودگی کا تناسب معلوم ہونے کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ اسلام آباد بھی ماحولیاتی آلودگی کے مسائل سے پاک نہیں ہے۔
اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ ملک کا دارلحکومت سرسبز و شاداب، درختوں سے ڈھکا خوبصورت شہر ہے۔ لیکن اب اسلام آباد کی فضاؤں میں پائی جانے والی آلودگی کے معیار کے نئے اعداد و شمار سامنے آنے کے بعد یہ تاثر ختم ہو گیا ہے۔ اسلام آباد کے فضائی آلودگی کے انڈکس پر 154 نمبر پر آنے کے بعد شہریوں اور حکومت کے لیے تشویش بڑھ گئی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام آباد کے سرسبز و شاداب ہونے کے باوجود ملک کا دارلحکومت فضائی آلودگی کی زد میں کیوں آ رہا ہے؟
وی نیوز سے ماحولیاتی تبدلیوں کی ماہر ظل ہما نے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ اسلام آباد آلودگی سے پاک سرسبز و شاداب شہر کی حثیت سے جانا جاتا ہے، صرف یہی نہیں بلکہ اس کا شمار دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں ہوتا ہے۔
اسلام آباد میں فضائی آلودگی کا مسئلہ آبادی میں اضافے کے ساتھ شروع ہوا، ظل ہما
ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں فضائی آلودگی کا مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب یہاں کی آبادی وقت کے ساتھ بڑھتی گئی اور رہائش کے لیے تعمیراتی کام شروع ہوئے۔ کیونکہ آبادی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے رہائشی انتظامات بھی ضروری تھے۔ لیکن اس کی وجہ سے اسلام آباد کی ہریالی کم ہوتی گئی۔ درخت کاٹ دیے گئے اور ان کی جگہ رہائشی منصوبے پلان کیے گئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب آبادی بڑھتی ہے تو ضرورت صرف رہائش تک محدود نہیں رہتی بلکہ ٹرانسپورٹ کا تناسب بھی اسی شرح سے بڑھ جاتا ہے۔
فضائی آلودگی کے خاتمے کے لیے میٹرو بس جیسے مزید پراجکیٹ شروع کیے جائیں
ظل ہما نے تجویز کیا کہ میٹرو بس سروس کے آغاز سے اسلام آباد اور راولپنڈی میں ٹرانسپورٹ کی تعداد میں قدرے کمی واقع ہوئی ہے جس کے فضائی آلودگی کے حوالے سے بھی فوائد سامنے آئے ہیں اس لیے اس طرح کے پراجیکٹس کی مزید ضرورت ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اسلام آباد کو دنیا کا خوبصورت اور سرسبز دارالحکومت مانا جاتا ہے لیکن بڑھتی ہوئی ٹریفک اور پھر کاربن کے اخراج سے اس کے قدرتی ماحول پر انتہائی منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔
ظل ہما کہتی ہیں کہ دُنیا میں مجموعی طور پر بھی گلوبل وارمنگ بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جو سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔
پاکستان بھی ہیٹ ویوز سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے اس سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی سے پہلے کراچی اور لاہور ہی متاثر تھے لیکن اب اس کا دائرہ اسلام آباد تک پھیل چکا ہے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد میں اپریل 2022 میں رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد 1.3 ملین تھی جبکہ اسلام آباد کی آبادی 2.6 ملین ریکارڈ کی گئی تھی۔ آبادی اور گاڑیوں کی تعداد کے درمیان پائے جانے والے تناسب سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام آباد کی ہریالی کتنی متاثر ہو رہی ہے۔
اس حوالے سے سی ڈی اے کے ڈائیریکٹر جنرل ورکس حبیب اللہ شیخ نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں آدھے سے زیادہ سوسائیٹیاں غیر قانونی ہیں۔ جن کے پاس این او سی ہی نہیں ہے۔ جبکہ سی ڈی اے کی اپنی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی تعداد تقریبا 10 ہے۔
فضائی آلودگی میں اضافے کا حساب ہاؤسنگ سوسائیٹیوں سے لیا جائے، حبیب اللہ
ان کا کہنا ہے کہ تعمیراتی کام کی بنا پر جو آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے اس کا جواب سب سے پہلے ان سوسائیٹیوں سے لیا جائے جبکہ سی ڈی اے کی جانب سے جو ہاؤسنگ سوسائیٹیاں بنائی جا رہی تھیں تو ان کے متبادل درخت بھی لگائے جاتے رہے ہیں اور اب تو سی ڈی اے کے وہ تمام رہائشی منصوبے اپنے اختتام پر ہیں۔
ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی کی سربراہ فرزانہ الطاف شاہ کے مطابق اسلام آباد مارگلہ روڈ ماحولیاتی تحفظ کے ادارے کی اپروول کے بغیر بنائی گئی ہے۔
اس بیان کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈی جی ورکس نے کہا کہ جب سی ڈی اے نے مارگلہ روڈ بنائی تو اس کے اطراف میں تقریباً 5 سے 6 ہزار کے قریب درخت لگائے گئے اور یہ روڈ ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی کی اپروول کے بعد بنایا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فرزانہ الطاف کی جانب سے ایسا کیوں کہا جا رہا ہے؟ اس کی میرے پاس کوئی دلیل نہیں ہے، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ یہ روڈ ماحولیاتی تحٖفظ کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی بنائی گئی تھی۔‘
ظل ہما نے اسلام آباد کو ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد سے محفوط رکھنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث رہائشی منصوبے بنانا لازمی ہیں لیکن ان رہائشی منصوبوں کو بناتے ہوئے ماحول کو مد نظر رکھنا بھی نہایت اہم ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ جتنے تیزی سے گھر اور گاڑیاں بڑھ رہی ہیں اتنی ہی تیزی سے درخت اور پودے بھی ہر صورت لگائے جانے چاہییں۔ گھروں کی چھتوں پر گارڈن بنانے کے خیال کو عام کیا جائے، سکول میں بچوں کو پودے لگانے کے طریقوں سے آگاہ کیا جائے، تاکہ چھوٹی عمر سے انہیں ماحول کے تحفظ میں دلچسپی پیدا ہو۔ انتظامیہ کو بروقت پالیسیاں بنا کر علمدرآمد کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔
آبادی اور گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ فضائی آلودگی کا باعث بن رہا ہے، علی نقوی
ماحولیاتی تحفظ کے کارکن سید علی نقوی نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اسلام آباد میں جس تیز رفتاری کے ساتھ رہائشی منصوبے بنائے جا رہے ہیں اور اگر اسی رفتار سے یہ منصوبے جاری رہے تو وہ دن دور نہیں ہے جب اسلام آباد بھی لاہور اور کراچی کہ طرح ہی آلودہ شہروں میں شمار کیا جانے لگے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ دوسری جانب پاکستان میں گاڑیوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوچکا ہے، جڑواں شہروں میں میٹرو بس سروس کے باوجود بھی گاڑیوں کی تعداد بہت ہی زیادہ بڑھ چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ گاڑیاں جو تقریباً 20 سے 15 برس پرانی ہو چکی ہیں ان تمام گاڑیوں کے لائسنس کو منسوخ کرے کیونکہ پرانی گاڑیاں ایک طویل عرصہ چلنے کے بعد زہریلا دھواں پھیلانے لگتی ہیں ۔
حکومت فضائی آلودگی کے خاتمے کے لیے موٹر وہیکل آرڈیننس میں ترمیم کرے
انہوں نے تجویز کیا کہ ماحولیاتی آلودگی کے بڑھتے ہوئے مسائل پر قابو پانے کے لیے حکومت کو یہ بھی چاہیے کہ وہ گاڑیوں سمیت ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والے دیگر عوامل پر بھاری ٹیکس عائد کرے جس سے نہ صرف پاکستان کی آمدنی میں اضافہ ہو گا بلکہ ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے میں بھی مدد ملے گی۔
اس کے علاوہ جدید انجن آپ گریڈیشن کی پالیسی بنانے کی بھی اشد ضرورت ہے، اس کے علاوہ 1965 کے موٹر وہیکل آرڈیننس میں ترمیم کر کے اسے آج کے مسائل سے ہم آہنگ کیا جانا چاہیے۔
پاکستان میں فضائی آلودگی سے ہر سال 22 ہزار افراد مر جاتے ہیں، ورلڈ بینک
واضح رہے کہ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال پاکستان میں فضائی آلودگی کی وجہ سے 22 ہزار افراد جاں بحق جبکہ 4 کروڑ سے زیادہ افراد سانس کی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔
اس حوالے سے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر احتشام حیدر کہتے ہیں کہ گزشتہ چند سالوں میں دیگر شہروں کی طرح اسلام آباد میں بھی دل کے امراض، خشک کھانسی، دمہ، الرجی اور سانس لینے میں دقت جیسی بیماریوں میں اضافہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سردی کی شدت بڑھنے کے ساتھ اب اسلام آباد میں بھی فضائی آلودگی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ سے سردیوں میں مریض سب سے زیادہ دمہ اور خشک کھانسی کی شکایت کرتے ہیں۔
تعمیراتی منصوبوں کے گردوغبار سے فضائی آلودگی میں اضافہ
ان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں تعمیراتی منصوبوں کی وجہ سے گردو وغبار بہت زیادہ بڑھ گیا ہے، دوسری جانب اب اسلام آباد میں بھی گزشتہ ایک 2 برسوں سے گیس لوڈشیڈنگ ہوتی ہے اور نچلے طبقے کے لوگ لکڑیاں جلا کر گزر بسر کرتے ہیں اور یہ بھی تھوڑا بہت آلودگی کا سبب بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ مجموعی طور پر اور بھی بہت سے عوامل ہیں جو سانس کی بیماریوں کا سبب بن رہے ہیں جو کہ محض فضائی آلودگی کی وجہ سے ہی ہیں۔
فضائی آلودگی سے سانس کی بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے
انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد میں آلودگی سے نمٹنے کے لیے جلد از جلد اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ اس کی وجہ سے لوگ مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔
زہریلے مادوں کے اخراج کے خاتمے کے لیے حکومت کے ساتھ مل کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے تا کہ آنے والی نسلیں ماحولیاتی آلودگی سے بچ سکیں، اگر ہم نے بروقت فطرت کا تحفظ نا کیا تو سانس لینے کی بیماریاں بہت خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔