جنوبی کوریا کی ایک عدالت نے جرم کی ایک حقیقی پرستار خاتون کو عمر قید کی سزا سنائی ہے جس نے ایک اجنبی خاتون کو محض تجسس کی بنا پر قتل کر دیا تھا۔
پولیس نے بتایا کہ 23 سالہ خاتون جونگ یو جونگ کو کرائم شوز اور ناولوں کا جنون تھا اور اس نے ذہنی بیماریوں سے متاثر یعنی سائیکوپیتھ ہونے کے تعین کے لیے ٹیسٹ میں بہت زیادہ نمبر حاصل کیے تھے۔
قتل کی کوشش کے خیال سے لبریز، جونگ یو جونگ نے انگریزی زبان کی ایک استاد سے ملنے کے لیے ایک ایپ کا استعمال کیا اور گزشتہ مئی میں اسے اس کے اپنے ہی گھر میں چاقو کے وار کر کے قتل کر دیا تھا۔
اس وحشیانہ قتل نے جنوبی کوریا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
عدالت میں استغاثہ کی جانب سے ملزمہ کے لیے سزائے موت کی استدعا کی گئی تھی، جو عام طور پر سنگین ترین جرائم کے لیے اپنائی جاتی ہے۔
پولیس نے عدالت کو بتایا کہ اپنے دادا کے ساتھ رہائش پذیر، بے روزگار اور تنہا جونگ مہینوں سے ایک آن لائن ٹیوشن ایپ کا استعمال کرتے ہوئے اپنے ہدف کی تلاش میں تھی۔
جونگ نے خواتین کو ترجیح دیتے ہوئے 50 سے زیادہ لوگوں سے یہ پوچھتے ہوئے رابطہ کیا کہ کیا وہ اپنے گھر پر ہی ٹیوشن پڑھاتی ہیں۔
مئی میں، ایک ہائی اسکول کی طالبہ کی ماں کے طور پر جسے انگریزی کے مضمون میں مدد کی ضرورت تھی، اس نے 26 سالہ متاثرہ لڑکی سے رابطہ کیا، جو جنوب مشرقی شہر بوسان میں رہتی تھی تاہم پولیس کی جانب سے اس کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے۔
استغاثہ کے مطابق جونگ اس کے بعد اسکول یونیفارم میں ملبوس ٹیوٹر کے گھر دکھائی دی جو اس نے آن لائن خریدا تھا، گھر میں داخل ہونے کے بعد اس نے خاتون ٹیوٹر پر چاقو سے حملہ کرتے ہوئے مجموعی طور پر اس پر 100 سے زائد وار کیے، ظاہر ہے کہ یہ حملہ خاتون ٹیوٹر کی موت کے بعد بھی جاری رہا۔
اس کے بعد جونگ نے خاتون ٹیوٹر کی لاش کے ٹکڑے کیے اور بوسان کے شمال میں ایک ندی کے قریب دور دراز پارک لینڈ میں کچھ باقیات پھینکنے کے لیے ٹیکسی کی سواری کی۔
23 سالہ قاتل جونگ کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب ٹیکسی ڈرائیور نے پولیس کو ایک مسافر کے بارے میں اطلاع دی جس نے خون میں بھیگا ہوا سوٹ کیس جنگل میں پھینک دیا تھا۔
پولیس کے مطابق جونگ کی آن لائن براؤزنگ ہسٹری سے پتہ چلتا ہے کہ اس نے کئی مہینوں تک نہ صرف اس بات پر تحقیق کی تھی کہ قتل کس طرح کیا جائے بلکہ لاش کو کیسے ٹھکانے لگایا جائے۔
لیکن پولیس کے مطابق قاتل جونگ لاپرواہ بھی تھی یہی وجہ ہے کہ اس نے سی سی ٹی وی کیمروں سے بچنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی اور یوں وہ مقتول ٹیوٹر کے گھر میں داخل ہوتے اور نکلتے ہوئے کئی بار کیمرے کی زد پہ آئی۔
بوسان ڈسٹرکٹ کورٹ میں سزا سنانے والے جج نے کہا کہ اس قتل نے معاشرے میں خوف پھیلا دیا ہے کہ کسی کو بھی بلا وجہ قتل کیا جاسکتا ہے اور کمیونٹی میں عمومی طور پر عدم اعتماد کو تقویت دی ہے۔
گزشتہ جون میں جرم کا اعتراف کرنے والی جونگ نے مزید نرم سزا کی درخواست کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ وہ اس وقت فریب نظر اور دیگر ذہنی عارضے کا شکار تھی۔
لیکن عدالت نے اس موقف کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ جرم کو احتیاط سے منصوبہ بندی کے بعد انجام دیا گیا تھا، جس کے پیش نظر ذہنی اور جسمانی خرابی کے اس کے دعوے کو قبول کرنا مشکل ہے۔
عدالتی ریکارڈ کے مطابق پولیس کے سامنے ملزم خاتون کے بیانات کئی بار بدل چکے تھے، ابتدائی طور پر جونگ نے بتایا کہ خاتون ٹیوٹر کو کسی اور نے قتل کیا تھا جبکہ اس نے صرف لاش منتقل کی تھی، پھر بعد میں دعویٰ کیا کہ قتل کسی جھگڑے کے نتیجے میں ہوا ہے۔
بالآخر اس نے اعتراف کیا کہ قتل کے ارتکاب میں اس کی دلچسپی کرائم شوز اور ٹی وی پروگراموں کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی، اگرچہ جنوبی کوریا میں سزائے موت کا قانون برقرار ہے، لیکن یہاں 1997 کے بعد سے کس کو پھانسی نہیں دی گئی ہے۔