سرکاری خط و کتابت اور نوٹی فیکیشنز پر افسران کا نام ضرور لکھا جائے، سپریم کورٹ

پیر 27 نومبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ نے سرکاری خط و کتابت و نوٹی فیکیشنز پر افسران کا نام لکھنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ سرکاری کاغذات اور نوٹی فیکیشن پر افسر کا عہدہ اور نام دونوں ضرور لکھے جائیں۔

سپریم کورٹ میں اسسٹنٹ کنزرویٹیو جنگلات کی بھرتیوں سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے عدالت نے حکم دیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ پرعمل کیا جائے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے بھرتیوں کے عمل پر سخت اظہار برہمی کیا اور سیکرٹری جنگلات، چیف سیکرٹری سندھ اورایڈووکیٹ جنرل سندھ سے جواب طلب کرلیا۔

چیف جسٹس فائزعیسی نے سندھ ایڈووکیٹ جنرل آفس کے لا افسران پر سوالات اٹھا دیے، کہا کہ سندھ ایڈووکیٹ جنرل آفس میں 80 لاء افسران ہے۔ لاء افسران کی اتنی بڑی فوج، عدالت کوئی پیش نہیں ہوتا۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ حسن اکبر کو اضافی لا افسران کو ہٹانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ جب ہم پریکٹس کرتے تھے تو دو 3 لا افسران ہوتے تھے۔ ان سب لا افسران کو فارغ کریں۔ لا افسران ہر سوال پر پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں۔ سندھ میں قابل وکلا موجود ہیں انہیں لا افسران لگایا جائے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ محکمہ جنگلات میں کنزرویٹیو افسران کی تعیناتی میں عمر حد میں 15 سال کی رعایت دی گئی۔ اشتہات میں اسٹنٹ کنزرویٹیو افسر کے لیے عمر کی حد 30 سال مانگی گئی۔ 15 سال کی رعایت دیکر 45 سال کے بڈھوں کو بھرتی کیا گیا۔ عمرکی رعایت مخصوص حالات میں مل سکتی ہے۔ یہاں تو بھرتیوں کے لیے کئی امیدوار موجود تھے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ تعلقات پر نوکریاں دینی ہیں تو جامعات بند کردیں۔ ہماری دلچسپی صوبے کے عوام کے مفاد سے ہیں۔ 45 سال کا بھرتی شخص 60 سال کی عمر میں ریٹائرڈ ہو جائے گا۔ پھر اس کو ریٹائرمنٹ پر پنشن اور مراعات دیں۔ یہ سب کرکے ہم دنیا سے بھیک مانگتے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت جنوری 2024 تک ملتوی کردی۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سندھ حکومت کا اطمینان بخش جواب نہ آیا تو چیف سیکریٹری کو طلب کریں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp