سپریم کورٹ آف پاکستان نے بحریہ ٹاؤن ادائیگیوں کے کیس کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے بیرون ملک سے مشکوک رقم کو عدالت عظمیٰ کے اکاؤنٹ میں رکھنے کو بدقسمتی قرار دیا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بدقسمتی ہے سپریم کورٹ کی اجازت کے بغیر بیرون ملک سے رقم اکاؤنٹ میں بھیجی گئی، عدالت عظمیٰ غیر ضروری طور پر نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی پکڑی گئی رقم میں ملوث ہوئی۔ ضبط کردہ رقم شاید مجرمانہ سرگرمیوں کی آمدن تھی۔
مزید پڑھیں
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بیرون ملک سے رقوم بھیجنے والوں کو نوٹس کیے، مشرق بینک کے علاوہ کوئی بتانے سامنے نہیں آیا کہ ان کے اکاؤنٹس سے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں رقم کیوں بھیجی گئی، بظاہر یہ رقم بحریہ ٹاؤن کے واجبات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کی گئی تھی۔
فیصلے میں بیرون ملک سے آئی رقم کے لیے ’پیٹر کو لوٹ کر پال کو دینے‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔
عدالتی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ بیرون ملک سے موصول رقم اور اس پر کمایا گیا منافع حکومت پاکستان کو بھیجا جائے جبکہ اقساط کی ادائیگی میں ناکامی پر بحریہ ٹاؤن کو نادہندہ قرار دیا گیا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن رضامندی معاہدے کے ڈیفالٹ میں ہے، سپریم کورٹ اکاؤنٹ میں معاہدے کے مطابق قسطیں ایک عرصے سے جمع نہیں کرائی گئیں۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ رقم رجسٹرار اکاؤنٹ میں رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، یہ سندھ کے لوگوں کی رقم ہے لہٰذا صوبائی حکومت کو بھجوائی جائے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 23 نومبر کو بحریہ ٹاؤن کراچی کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کی جمع کرائی گئی رقم سندھ اور بیرون ملک سے آنے والے پیسے وفاقی حکومت کو ادا کیے جائیں۔