کافی کو عام طور پر جدید طرز زندگی کا ایک اہم جزو سمجھا جاتا ہے لیکن سعودی عرب میں یہ صدیوں پرانی روایت ہے جسے سعودی شہری آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
وہاں آج بھی لوگ ’شعبیہ‘ سے لطف اندوز ہونے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔ شعبیہ ایک ایسی سعودی روایت ہے جس میں لوگ شاعری اور کہانی سنتے ہوئے کافی تیار کرتے اور پیتے ہیں۔
معروف اخبار’عرب نیوز‘ کے مطابق اس روایت کا آغاز شمالی سعودی عرب سے ہوا۔ کافی سے لطف اندوز ہونے کے لیے ہر عمر کے لوگ ایک ’نجر‘ کے ارد گرد گپ شپ کے لیے جمع ہو جاتے ہیں۔ نجر لوہے کے برتن کو کہتے ہیں جسے الائچی پیسنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس پسی ہوئی الائچی کو بعد ازاں کافی میں شامل کیا جاتا ہے۔
کافی کے شوقین سعودی شہری فارس التوالہ کا کہنا ہے کہ کافی کے لیے زیادہ تر لوگ ایک مخصوص وقت پر جمع ہوتے ہیں کیونکہ عام حالات میں وہ اپنے کام میں مصروف ہوتے ہیں، لہٰذا وہ شعبیہ میں مل بیٹھنے کے لیے ایک مخصوص دن اور وقت مقرر کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا، ’میرے گھر ملنے جلنے والوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے، بہت سے لوگ ایسا ہی کرتے ہیں اور گھر میں شعبیہ سے لطف اندوز ہوتے ہیں جہاں ملنے کے لیے آنے والے لوگ بعض اوقات گھنٹوں تک بیٹھے رہتے ہیں‘۔
مزید پڑھیں
فارس التوالہ نے مزید بتایا کہ میزبان روایتی طور پر اپنے گھروں کے دروازے کھلے چھوڑ دیتے ہیں تاکہ مہمان اپنے کاموں سے فراغت پا کر بہ آسانی آسکیں، کافی اور دیگر اشیائے خورو نوش کے ساتھ ساتھ اپنے ہی علاقے کے لوگوں کے ساتھ وقت گزار سکیں۔ واضح رہے کہ اس محفل میں چائے اور کافی کے علاوہ کھجور اور پھل بھی پیش کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ شعبیہ میزبان کافی تیار کرنے کے لیے خصوصی برتنوں کا استعمال کرتا ہے جس میں نجر اور المجل شامل ہیں۔ المجل ایک گول اور چپٹا لوہے کا برتن ہوتا ہے جسے کافی بینز بھوننے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
شعبیہ کی محفلوں کو روایتی طور پر قدیم اقدار اور اصولوں جیسے سخاوت اور باہمی احترام اور مضبوط خاندانی تعلق کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ماضی میں جب خانہ بدوش بدو قبائل صحرا کا سفر کرتے تھے، اس وقت علاقے کے بااثر افراد کو سب سے پہلے کافی پیش کرنے کا رواج عام تھا۔
شعبیہ میں کافی کے برتن پر کپ پلٹانے کا رواج ظاہر کرتا ہے کہ گھر کا سربراہ دور ہے لیکن مہمانوں کو گھر میں خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ یہ صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی اسی طرح مقبول ہے۔
شعبیہ کے لیے دروازے کسی بھی وقت کھل سکتے ہیں۔ بزرگ ایک دوسرے سے اکثر فجر کی نماز کے بعد ملنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ التوالہ نے کہا، ’ہم اپنے بزرگوں سے سیکھنے اور ان کی دلچسپ کہانیاں سننے کے لیے ان کے ساتھ بیٹھنا پسند کرتے ہیں‘۔