سنگین غداری کیس: مشرف مارشل لاء کو قانونی کہنے والے ججوں کا بھی ٹرائل ہونا چاہیے، سپریم کورٹ

منگل 28 نومبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ میں پرویز مشرف کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ مشرف نے آئین توڑا، اسمبلیاں توڑیں، اسی عدالت نے رستہ دیا، مشرف مارشل لاء کو قانونی کہنے والے ججوں کا بھی ٹرائل ہونا چاہیے، ہمیں سچ بولنا چاہیے۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ پرویز مشرف کی درخواستوں پر سماعت کی۔ لاہور ہائیکورٹ فیصلے کے خلاف حامد خان نے تحریری دلاٸل عدالت میں پیش کیے۔ پاکستان بار کونسل کے وکیل ہارون الرشید نے دلائل دیے تو چیف جسٹس نے تیاری نہ ہونے پر ناگواری کا اظہار کیا۔ سندھ ہائیکورٹ بارکے وکیل رشید اے رضوی نے دلائل میں پرویزمشرف کے مارشل لاء کا ذکر کیا تو جسٹس اطہر من اللہ نے روکتے ہوئے کہا کہ رشید رضوی صاحب ماضی میں کب تک جائیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے مجھے جسٹس اطہرمن اللہ کا احترام ہے مگر ہمیں اب ماضی میں جانا چاہیے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بالکل جائیں پھر اسی مشرف نے 12 اکتوبر کو بھی آئین توڑا، اسمبلیاں توڑیں، 12 اکتوبر کے اقدام کو اسی عدالت نے راستہ دیا، مشرف مارشل لاء کو قانونی کہنے والے ججوں کا بھی ٹرائل ہونا چاہیے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ کاروائی صرف 3 نومبرکے اقدام پر کیوں کی گئی؟ 3 نومبر کو صرف ججوں پر حملہ ہونے پر کارروائی ہوگی تو فئیر ٹرائل کا سوال اٹھےگا۔ کیا ججوں پر حملہ، اسمبلیاں توڑنے اور آئین معطل کرنے سے زیادہ سنگین معاملہ تھا؟ ہمیں سچ بولنا چاہیے، اگر کسی فیصلے کو ختم ہونا ہے تو اسے ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے جو ماضی میں ہوچکا اسے میں ختم نہیں کر سکتا قوم بننا ہے تو ماضی کو دیکھ کر مستقبل کو ٹھیک کرنا ہے سزا اور جزا اوپر بھی جائے گی۔ وکیل بتائیں ناں کہ آئین توڑنے والے ججوں کی تصاویر یہاں کیوں لگی ہیں، جج ہی یہاں بیٹھ کر کیوں پوائنٹ آؤٹ کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ میڈیا بھی ذمہ دار ہے ان کا بھی احتساب ہونا چاہیے، بتائیں کتنے صحافی مارشل لاء کے حامی اور کتنے خلاف تھے؟ ہمیں تاریح سے سیکھنا چاہیے بچوں کو بھی سکھانا چاہیے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ تاریخ پھر یہ ہے کہ جب کوئی مضبوط ہوتا ہے اس کیخلاف کوئی نہیں بولتا، جب طاقتور کمزور پڑ جاتا ہے اس کے بعد عاصمہ جیلانی والا فیصلہ آجاتا ہے۔

وکیل رشید اے رضوی نے غیر آئینی اقدامات کا جواز پیدا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا مؤقف اپناتے ہوئے دلائل مکمل کیے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ وفاق نے لاہور ہائیکورٹ کی کارروائی پر اعتراض نہیں کیا، اس وقت حکومت کس کی تھی؟ حامد خان نے بتایا کہ پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔

چیف جسٹس نے حامد خان سے کہا کہ اب ہم آپ کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتے، آپ اپنے گھر سے ہوئی غلط بات کو غلط کہنے کھڑے ہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ پرویز مشرف کے خلاف کارروائی شروع ہونے پر اسوقت کی حکومت بھی کارروائی نہیں چاہتی تھی۔ اس وقت کس کی حکومت تھی؟ حامد خان بولے مسلم لیگ ن کی حکومت تھی جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم سزا بھی برقرار رکھیں اور سب کو پینشن اور مراعات بھی ملتی رہیں یہ نہیں ہوگا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کنفیوز لگ رہے ہیں انہیں شاید وہ سیم پیج مل نہیں رہا، حکم نامے میں سوال کیا گیا کہ ملزم کی وفات پر کیا اپیل غیر مؤثر نہیں ہوئی؟ کیا سزا برقرار رہنے پر مشرف کی فیملی کو مراعات دینی چاہیں یا نہیں؟ عدالت نے سماعت 10 جنوری تک ملتوی کردی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp