پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کو پہلے اجرتی سیاستدانوں اور اب اجرتی وکیلوں نے ہائی جیک کر لیا ہے جن میں بغیر پوچھے عہدے بانٹے جا رہے ہیں، بتایا جائے ان کی پارٹی کے لیے کیا خدمات ہیں۔
وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اکبر ایس بابر نے کہاکہ بادشاہوں کی طرح بغیر کسی میرٹ کے جس سے خوش ہو گئے اسے عہدہ دے دیا۔ پی ٹی آئی کسی ایک شخص کو وزیراعظم بنانے کے لیے نہیں بلکہ ملک کو بہتر سیاسی قیادت دینے کے لیے بنی تھی۔
’عمران خان کا رویہ مکمل غیر جمہوری ہے۔ پی ٹی آئی کے اندھی تقلید کرنے والے سپورٹرز کو یاد رکھنا چاہیے کہ اندھی تقلید لیڈر کو اندھا کر دیتی ہے اور سب کنویں میں جا گرتے ہیں‘۔
عمران خان کا بلامقابلہ پی ٹی آئی چیئرمین بننا ایک ڈھونگ اور ناٹک ہے
اکبر ایس بابر نے کہاکہ عمران خان کا بلامقابلہ پی ٹی آئی چیئرمین منتخب ہونا پارٹی آئین کی خلاف ورزی ہے، یہ نیشنل کونسل کے اجلاس اور پارٹی آئین میں ترمیم کیے بغیر کیسے ہو گیا۔ پہلے کہہ رہے تھے کہ پارٹی انتخابات کے لیے وقت نہیں پھر کہا کہ جمعے کو پارٹی چیئرمین کا انتخاب ہے اور پھر کہا کہ عمران خان بلامقابلہ منتخب ہو گئے ہیں۔
مزید پڑھیں
انہوں نے تحریک انصاف کی شفاف انتخابات کے لیے جدوجہد کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ جب ہمیں انتخابات میں شفافیت کے حوالے سے شکایات ہوتی تھیں تو عمران کہتے تھے کہ یہ ایدھی امین یا حسنی مبارک کا انتخاب ہونے جا رہا ہے جس میں 99.9 فیصد ووٹ انہیں پڑتے تھے، اب جو عمران خان کا بطور پارٹی چیئرمین انتخاب ہوا ہے اس سے تو ایدھی امین اور حسنی مبارک بھی اپنی قبروں میں کروٹیں لے رہے ہوں گے۔
’ابھی تو الیکٹورل کالج نہیں بنا، نہ پارٹی انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہوا، نہ کارکنوں کو موقع دیا گیا کہ وہ ضلعی سطح سے صوبائی اور پھر مرکزی قیادت کا انتخاب کرتے، ایسے ہی بلامقابلہ پارٹی چیئرمین کا انتخاب کر دیا گیا جو ایک ڈھونگ اور ناٹک ہے‘۔
اکبر ایس بابر پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن میں کیوں دلچسپی لے رہے ہیں؟
ایک سوال کہ آپ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات میں کیوں دلچسپی لے رہے ہیں؟ کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صرف پی ٹی آئی ہی نہیں تمام سیاسی جماعتیں شخصیات اور خاندانوں کے گرد گھومتی ہیں جس کی وجہ سے ملک میں قیادت کا بحران پیدا ہو گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ قابل اور اچھے کردار کے لوگوں کو آگے نہیں آنے دیا جاتا۔ ہماری جدوجہد کا بنیادی نقطہ ہے کہ ان جماعتوں کو شخصی اور خاندانی اثر سے آزاد کرنا ہے۔
پی ٹی آئی میں شفاف نظام بننے کی صورت میں کئی رہنما دوبارہ متحرک ہوسکتے ہیں
ایک اور سوال کہ کیا آپ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں؟ کے جواب میں اکبر ایس بابر نے کہا کہ میں حصہ لینا چاہتا ہوں اور میرے ساتھ اور بھی کئی بانی اراکین ہیں جو اگر ایک صاف اور شفاف نظام بننے کی صورت میں متحرک ہوں گے۔ سعید اللہ خان نیازی پی ٹی آئی کے بانی صدر پنجاب ہیں اور اعلانیہ میرے ساتھ کھڑے ہیں، فوزیہ قصوری ہمارے ساتھ ہیں، اس کے علاوہ یوسف علی ہیں جو صوابی سے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے تھے۔
’محمود خان، ایڈمرل جاوید، ٹیکسلا سے بلال رانا، خواجہ امتیاز سابق صدر پی ٹی آئی برطانیہ کے علاوہ ایک لمبی فہرست ہے‘۔
عمران خان کی مقبولیت سے پاکستان کو کیا ملا؟
اکبر ایس بابر نے کہا کہ عمران خان کی مقبولیت ایک غیر حقیقی چیز ہے، آپ یہ بتائیں کہ عمران کی مقبولیت سے پاکستانی قوم کو کیا فائدہ ہوا، پی ٹی آئی ملک کے فائدے کے لیے بنائی گئی تھی تاکہ لوگوں کو بہتر زندگی، تحفظ اور روزگار مل سکے، یہ جماعت کسی ایک شخص کی مقبولیت میں اضافے کے لیے نہیں بنائی گئی تھی۔
انہوں نے کہاکہ نیلسن مینڈیلا جب 27 سال بعد جیل سے باہر آیا تو صدر اور وزیر اعظم بھی بنا مگر اس نے عہدے کی ایک مدت کے بعد استعفٰی دیا اور اپنا سارا ووٹ بینک اپنی پارٹی کو منتقل کیا۔ لیڈر کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ اپنی مقبولیت میں اضافے کی جدوجہد کرے۔ اس کے برعکس عمران خان نے ایک جمہوری طریقے سے اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد ایک جھوٹے بیانیے کے ذریعے اپنی مقبولیت میں اضافے کی کوشش کی۔
پی ٹی آئی کو کلٹ بنانے میں میڈیا کا کردار ہے
اکبر ایس بابر نے کہا کہ پی ٹی آئی کو میڈیا اور ون پیج ڈاکٹرائن نے ایک کلٹ بنایا۔ عمران خان کو 4،4 گھنٹے لائیو ٹیلی ویژن پر دکھایا جاتا تھا جس سے اس کو ایک کلٹ بنایا گیا، ہمیں اس غیر حقیقی مقبولیت کے تصور سے بچنا ہے کیونکہ اس نے ملک کو کچھ نہیں دیا۔
کیا سیاسی جماعتوں کے انٹرا پارٹی انتخابات الیکشن کمیشن کی نگرانی میں ہونے چاہییں؟
اکبر ایس بابر نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ سیاسی جماعتوں کے انٹرا پارٹی انتخابات ان سیاسی جماعتوں کے آئین کے مطابق ہوتے ہیں لیکن مجھے ایک سیاسی رہنما نے بتایا کہ جب 2017 کا الیکشن ایکٹ بن رہا تھا تو اس میں تجویز آئی کہ انٹرا پارٹی انتخابات الیکشن کمیشن آف پاکستان کی نگرانی میں ہونے چاہییں جس کی سب سے زیادہ مخالفت پی ٹی آئی نے کی۔
پی ٹی آئی حکومت کیوں ناکام ہوئی؟
اکبر ایس بابر نے کہا کہ پی ٹی آئی نے خود کش بمبار کی طرح سیاست کی، جس طرح وہ نا صرف خود تباہ ہوتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی تباہ کرتا ہے۔ کچھ لوگ معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہیں کہ عمران کو اچھے مشیر نہیں ملے۔ اچھے مشیر نہ ملنے کے ذمے دار عمران خان ہیں۔ سب سے زیادہ ذمے داری خود لیڈر پر عائد ہوتی ہے۔
عمران خان کی نجی زندگی کے بارے میں کبھی بات نہیں کی
اکبر ایس بابر نے کہا کہ میں نے عمران خان کی نجی زندگی کے بارے میں کبھی بات نہیں کی لیکن جب میں نے فارن فنڈنگ مقدمہ دائر کیا تو اس سے اگلے دن میرے بارے میں انتہائی غلیظ پریس ریلیز جاری کی گئی اور مجھے خود سے نفرت ہو گئی کہ میں کن لوگوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا رہا ہوں۔
پی ٹی آئی کا مستقبل کیا ہے؟
پی ٹی آئی کے مستقبل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اکبر ایس بابر نے کہا کہ افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے کچھ سیکھا نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کے انتخابی نشان بلے کے لیے میں نے جدوجہد کی تھی لیکن آنے والے دنوں میں مجھے نا صرف پارٹی کا انتخابی نشان بلکہ پارٹی کا سیاسی مستقبل بھی خطرے میں نظر آتا ہے۔