ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد نے دائر خاتون جج زیبا چوہدری دھمکی کیس میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی بریت کی درخواست خارج کردی۔
قبل ازیں جج مرید عباس نے اس معاملے پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جسے اب سنادیا گیا ہے۔
عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر چیئرمین پی ٹی آئی کی بریت درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
جج مرید عباس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ بریت کی درخواست خارج کی جاتی ہے اور مزید کارروائی کے لیے سماعت 20 دسمبر تک ملتوی کی جاتی ہے۔
عدالت نے خاتون جج دھمکی کیس میں عمران خان کا ٹرائل شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جج مرید عباس نے قرار دیا کہ عمران خان خاتون جج دھمکی کیس میں بریت کے مستحق نہیں۔
سول جج مرید عباس نے بریت کی درخواست پر سماعت کی۔ پراسکیوٹر رضوان عباسی اور عمران خان کے وکیل خالد یوسف چوہدری عدالت میں پیش ہوئے، آج پراسیکیوشن نے اپنے دلائل مکمل کیے، گزشتہ روز چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے اپنے دلائل مکمل کئے تھے۔
خاتون جج دھمکی کیس میں چئیرمن پی ٹی آئی کی جانب سے درخواست بریت دائر کی گئی تھی، عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
خاتون جج کو دھمکی کا مقدمہ ہے کیا؟
چئیرمین پی ٹی آئی عمران خان نے 20 اگست 2022 کو ایف نائن پارک اسلام آباد میں احتجاجی جلسے سے خطاب کے دوران شہباز گل پر مبینہ تشدد کیخلاف آئی جی اور ڈی آئی جی اسلام آباد پر کیس کرنے کا اعلان کیا تھا۔
خطاب کے دوران ہی عمران خان نے شہباز گل کا ریمانڈ دینے والی خاتون مجسٹریٹ زیبا چوہدری کو نام لے کر انہیں بھی دھمکی دی تھی۔
مزید پڑھیں
عمران خان کا کہنا تھا ’آئی جی، ڈی آئی جی اسلام آباد ہم تم کو نہیں چھوڑیں گے، تم پر کیس کریں گے۔ مجسٹریٹ زیبا چوہدری آپ کو بھی ہم نے نہیں چھوڑنا، کیس کرنا ہے تم پر بھی، مجسٹریٹ کو پتا تھا کہ شہباز پر تشدد ہوا پھر بھی ریمانڈ دے دیا‘۔
مذکورہ بیان کے بعد پیمرا نے 21 اگست 2022 کو عمران خان کا خطاب لائیو دکھانے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ 6 صفحات پر مشتمل اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ عمران خان کی براہ راست تقاریر سے نقص امن پیدا ہونے کا خدشہ ہے، ٹی وی چینل ریکارڈڈ تقریر چلا سکتے ہیں۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان اپنی تقریروں میں اداروں پر مسلسل بے بنیاد الزام تراشی کر رہے ہیں۔ اداروں اور افسران کے خلاف بیانات آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی ہیں۔ اعلامیے میں عمران خان کے ایف نائن پارک میں خطاب کا حوالہ بھی شامل تھا۔