ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت سے سنائی گئی سزا کالعدم، نواز شریف ہائیکورٹ سے بری

بدھ 29 نومبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے نواز شریف کو بری کر دیا ہے۔

دوسری جانب فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی بریت کے خلاف نیب اپیل واپس لینے کی استدعا منظور کر لی گئی، نیب پراسیکیوٹر نے موقف اختیار کیا کہ ہم اپنی اپیل واپس لے رہے ہیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے آج نوازشریف کی ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی۔ اس موقع پر نواز شریف کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

اپنے معاملات کو اللہ پر چھوڑا تھا اسی نے سرخرو کیا، نواز شریف

سابق وزیراعظم و قائد پاکستان مسلم لیگ ن نوازشریف نے سزا معطلی کے فیصلے پر کہاکہ ایون فیلڈ ریفرنس میں بریت کے فیصلے پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ اپنے معاملات کو اللہ پر چھوڑا تھا اسی نے سرخرو کیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ العزیزیہ ریفرنس بھی اللہ پر چھوڑا ہوا ہے۔

نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے آج اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ایون فیلڈ کیس میں مریم نواز اور کیپٹن صفدر بری ہوئے، وہ آمدن سے زیادہ اثاثہ جات کا کیس تھا اور یہ کیس پراسیکیوشن نے ثابت کرنا تھا۔

بے نامی دار ثابت کرنا استغاثہ کا کام ہوتا ہے

امجد پرویز نے کہا کہ آمدن سے زائد اثاثہ جات کے مقدمے میں پراسیکیوشن نے پہلے آمدن کو ثابت کرنا ہوتا ہے، نواز شریف کے شریک ملزمان مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو اپیل منظور کر کے بری کیا گیا، شریک ملزمان پر اعانت جرم کا الزام تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ سے شریک ملزمان کی بریت کا فیصلہ حتمی صورت اختیار کر چکا ہے۔

نیب آرڈیننس میں بے نامی دار کی تعریف کی بنیاد پر سزا معطلی کی گئی، جسٹس میاں گل حسن

امجد پرویز نے عدالت میں نیب آرڈیننس کی مختلف سیکشنز پڑھ کر عدالت کو بتایا کہ نیب آرڈیننس میں بے نامی دار کی تعریف کی گئی ہے جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ میرے خیال میں سزا معطلی بھی اسی بنیاد پر ہوئی تھی، سزا معطلی کے فیصلے میں ہم نے سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں کا سہارا لیا تھا، سزا معطلی کے فیصلے سے تاثر ملتا تھا کہ جیسے اپیل منظور کر لی گئی ہے، بعد ازاں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلوں میں مزید وضاحت کی ہے، اس پر ہماری معاونت کریں۔

وکیل امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پراسیکیوشن نے پہلے یہ بتانا تھا کہ ملزم کے معلوم ذرائع آمدن کیا ہیں، اس کے بعد بتانا تھا کہ جن اثاثوں پر سوال کیا گیا ہے ان کی قیمت کیا ہے، یہ ایک ایسا مقدمہ ہے جس میں الزام کے کسی جز کو ثابت نہیں کیا گیا۔

کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ نواز شریف نے جائیدادیں خریدیں، وکیل امجد پرویز

اس موقع پر چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا ریفرنس میں کہیں لکھا ہے کہ ایون فیلڈ جائیدادیں کب خریدی گئیں، جس پر امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ کہیں نہیں لکھا اور کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ میاں نواز شریف نے یہ جائیدادیں خریدیں یا ان سے متعلق کسی قسم کے واجبات ادا کئے، نہ پانامہ فیصلہ، نہ جے آئی ٹی رپورٹ، نہ نیب ریفرنس، نہ فرد جرم کہیں بھی ایون فیلڈ جائیدادوں کی مالیت نہیں لکھی۔

نواز شریف کے وکیل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ پراسیکیوشن نے بتانا تھا کہ یہ معلوم ذرائع آمدن ہیں اور یہ جائیدادوں کی قیمت ہے اور یہ فرق ہے جس کی وجہ سے ملزم یہ جائیداد خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا تھا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے نشاندہی کی کہ نیب کے جمع کرائے گئے کاغذات میں نہ ایون فیلڈ جائیدادیں خریدنے کی تاریخ ہے اور نہ یہ کہ یہ کس کے نام ہیں جس پر وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جائیدادایں خریدنے کی تاریخ کا ذکر ہے، ڈاکومنٹس کے مطابق 1993, 1995 اور 1996 کی تاریخیں ہیں۔ امجد پرویز نے کہا کہ پراسیکیوشن نے ثابت کرنا تھا کہ اس وقت ملزم عوامی عہدے پر تھا۔

واجد ضیا نے تسلیم کیا کہ نواز شریف کا جائیدادوں سے تعلق نہیں، وکیل

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ نیب قانون میں بے نامی دار کی تعریف ہے؛ امجد پرویز نے جواب دیا کہ یہی تعریف فوجداری قانون میں ہے اور وہیں سے لی گئی ہے، بے نامی دار ثابت کرنا استغاثہ کا کام ہوتا ہے، نیب انوسٹی گیشن، جے آئی ٹی یا سپریم کورٹ کے فیصلے میں پراپرٹیز کی مالیت کا تعین موجود نہیں۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ریفرنس تو ہے بھی بس تین چار صفحوں کا ہی ہے۔ امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف کی ان پراپرٹیز سے تعلق جوڑنے کے لیے کوئی شہادت موجود نہیں، پانامہ فیصلہ، جے آئی ٹی رپورٹ، نیب انویسٹی گیشن رپورٹ، ریفرنس میں کوئی ایسی بات نہیں جس سے نواز شریف کا جائیدادوں سے تعلق ثابت ہو، واجد ضیا نے خود تسلیم کیا کہ نواز شریف کا پراپرٹیز سے تعلق ثابت کرنے کے شواہد موجود نہیں۔

وکیل امجد پرویز نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ عائد کردہ فرد جرم میں یہ بات بتائی جاتی ہے کہ آپ کے اثاثے ظاہر کردہ اثاثوں کے مطابق نہیں، واجد ضیا نے بھی جرح کے دوران مانا کہ ان کے پاس نواز شریف کا ان پراپرٹیز سے تعلق جوڑنے کا کوئی ثبوت نہیں۔

بچوں کے نواز شریف کے زیرکفالت ہونے کا بھی کوئی ثبوت نہیں

جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا کہ کیا ان تمام دستاویزات میں پراپرٹیز کے حصول کی تاریخ اور ان کی مالیت موجود نہیں جس پر امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ کچھ دستاویزات میں ہے لیکن ان پراپرٹیز کا نواز شریف سے تعلق ثابت کرنے کے حوالے سے کچھ موجود نہیں، سب سے اہم بات ان پراپرٹیز کی آنرشپ کا سوال ہے، نہ تو زبانی، نہ دستاویزی ثبوت ہے کہ یہ پراپرٹیز کبھی نواز شریف کی ملکیت میں رہی ہوں۔

وکیل نواز شریف نے بتایا کہ استغاثہ کو یہ ثابت کرنا تھا کہ مریم نواز، حسین نواز اور حسن نواز، نواز شریف کی زیر کفالت تھے، بچوں کے نواز شریف کی زیر کفالت ہونے کا بھی کوئی ثبوت موجود نہیں، ان تمام چیزوں کو استغاثہ کو ثابت کرنا ہوتا ہے، ان چیزوں کا بار ثبوت دفاع پر کبھی منتقل نہیں ہوتا۔

کمرہ عدالت قہقہوں سے گونج اٹھا

چیف جسٹس نے اسفتسار کیا کہ کیا یہ سارا پراسیکیوشن کا کام ہے۔ امجد پرویز نے جواب دیا جی بالکل یہ سب استغاثہ نے ثابت کرنا ہوتا ہے۔

اس موقع پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے نیب کے وکیل سے پوچھا کہ کیا آپ یہ نوٹ کر رہے ہیں، یہ بڑی اہم باتیں کر رہے ہیں، جس پر نیب کے وکیل نے جواب دیا جی سر میں نوٹ کر رہا ہوں۔ جسٹس اورنگزیب نے نشاندہی کی کہ آپ کے ہاتھ میں تو قلم ہی نہیں ہے جس پر کمرہ عدالت قہقہوں سے گونج اٹھا۔

بعدازاں عدالت نے نواز شریف کو ایون فیلڈ ریفرنس میں بری کرتے ہوئے مختصر فیصلہ سنادیا جبکہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp