برطانیہ نے لافنگ گیس پر پابندی کیوں لگا دی؟

بدھ 29 نومبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

برطانوی حکومت نے انگلینڈ اور ویلز میں نائٹرس آکسائیڈ یا ہنسنے والی گیس (لافنگ گیس) رکھنے کو ایک جرم قرار دے دیا۔

بی بی سی کے مطابق کرونا کی عالمی وبا کے دوران اس کے استعمال میں خاصا اضافہ ہوا اور خاص طور پر 16 سے 24 سال کی عمر کے افراد میں سب سے زیادہ استعمال کی جانے والی اشیا میں سے ایک ہے۔

نائٹرس آکسائیڈ کیا ہے اور یہ کیوں استعمال کی جاتی ہے؟

نائٹرس آکسائیڈ ایک بے رنگ گیس ہے جسے ناک اور منہ سے اندر کھینچا جاتا ہے اور عام طور پر دوا اور دندان سازی میں درد کش دوا کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ اس گیس سے بچے کی پیدائش کے دوران درد کو کم کرنے میں بھی مدد ملتی ہے اور یہ کیٹرنگ میں بھی استعمال ہوتی ہے۔

اس گیس کو تفریح کے طور پر استعمال کرنے والے اسے غبارے میں بھرلیتے ہیں اور پھر اسے سانس کے ذریعے اندر کھینچتے ہیں.

نائٹرس آکسائیڈ کے استعمال سے کیا ہوتا ہے؟

یہ گیس لوگوں کو آرام دہ، ہلکے سر یا چکر کا احساس دلا سکتی ہے۔ یہ سر درد اور بسا اوقات بہت زیادہ بے ہوشی کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق زیادہ اس کا استعمال وٹامن B12 کی کمی کا باعث بن سکتا ہے جو ریڑھ کی ہڈی میں اعصاب کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

اعصابی نقصان کی سب سے عام ابتدائی علامات ہاتھوں یا پیروں میں جھنجھلاہٹ کا احساس اور بے حسی ہیں۔

رپورٹ میں جن دیگر علامات پر روشنی ڈالی گئی ہے ان میں پٹھوں میں سختی، کمزور اعضا، مثانے یا آنتوں کی شکایات اور جنسی کمزوری شامل ہیں۔

نائٹرس آکسائیڈ کتنی خطرناک ہے؟

سنہ 2001  سے سنہ 2020 کے درمیان انگلینڈ اور ویلز میں 56 اموات ہوئیں جہاں موت کے سرٹیفکیٹ پر نائٹرس آکسائیڈ کا ذکر تھا۔ تاہم ان اعداد و شمار میں وہ اموات بھی شامل ہیں اس گیس کے طبی وجوہات کی بنا پر استعمال کے باعث ہوئی تھیں۔ لہٰذا وہ تمام ہی اموات غلط استعمال کی وجہ سے نہیں تھیں۔

اموات عام طور پر گیس کے استعمال کے ثانوی اثرات کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ عام طور پر اس وقت دم گھٹتا ہے جب گیس کو گاڑی یا کسی دوسری بند جگہوں پر استعمال کیا جاتا تھا یا پھر سر پر پلاسٹک کے تھیلی باندھ کر اسے ’ان ہیل‘ کیا جاتا ہے۔

امپیریل کالج لندن کے پروفیسر ڈیوڈ نٹ نے کہا کہ شواہد بتاتے ہیں کہ برطانیہ میں ہر سال اس گیس کو استعمال کرنے والے 10 لاکھ افراد میں سے ایک کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کے مقابلے میں تقریباً 4 کروڑ لکحل استعمال کرنے والوں میں ہر سال تقریباً 28 ہزار اموات ہوتی ہیں۔

پابندی کے بعد بطور تفریح اس گیس کو استعمال کرنے والوں کو کن سزاؤں کا سامنا کرنا پڑے گا؟

نائٹرس آکسائیڈ کو پہلے سائیکو ایکٹیو سبسٹینسز ایکٹ 2016 کے تحت کنٹرول کیا گیا تھا- جس کا مطلب تھا کہ اگر اس کے نفسیاتی اثرات کے لیے اسے استعمال کرنا ہو تو اس کی پیداوار، فروخت یا درآمد غیر قانونی تھی۔

 

ایک خوردہ فروش کو لاپرواہی سے نائٹرس آکسائیڈ فروخت کرنے پر6 ماہ قید یا لامحدود جرمانے کا سامنا کرنا پڑا۔ سنہ 2017 میں 152، سنہ 2018 میں 107 اور سنہ 2019 میں 52 سزائیں سنائی گئیں۔

نائٹرس آکسائیڈ اب منشیات کے غلط استعمال کے ایکٹ 1971 کے تحت کلاس سی کی دوائی ہے جو تفریحی مقاصد کے لیے قبضے اور فروخت کو ایک جرم بناتی ہے۔ یہ وہی درجہ بندی ہے جو انابولک اسٹیرائڈز اور کچھ ٹرانکولیسرز کے معاملے میں کی جاتی ہے۔

غیر قانونی استعمال کے لیے نائٹرس آکسائیڈ کے ساتھ پکڑے جانے والوں کو تنبیہ، کمیونٹی سروس یا لامحدود جرمانے کا سامنا کرنا پڑتا ہے تاہم دوبارہ ایسا کرنے پر2 سال تک قید ہو سکتی ہے۔ غیر قانونی مقاصد کے لیے منشیات کی تیاری یا فراہمی کی زیادہ سے زیادہ سزا 14 سال ہے۔

کچھ ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ اس مادے کے استعمال کو جرم قرار دینے سے صارفین طبی مدد حاصل کرنا بند کر سکتے ہیں۔ جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ لافنگ گیس پر پابندی سے استعمال بند نہیں ہوگا۔

کیا اب نائٹرس آکسائیڈ برطانیہ میں مزید دستیاب نہیں رہے گی؟

طبی استعمال متاثر نہیں ہوتا ہے اور لوگ اب بھی نائٹرس آکسائیڈ کو وائپڈ کریم اور دیگر صنعتی مقاصد کے لیے پروپیلنٹ گیس کے طور پر خرید سکیں گے۔ تاہم انفرادی صارفین کو یہ ثبوت دینا ہوگا کہ وہ قانونی طور پر یہ گیس استعمال کر رہے ہیں نہ کہ اسے بطور نشہ استعمال کریں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp