ایم کیو ایم نے کس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ن لیگ سے اتحاد کیا؟

جمعرات 30 نومبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ایم کیو ایم پاکستان کے سینیئر رہنما اور رابطہ کمیٹی کے رکن حسان صابر نے کہا ہے کہ عام انتخابات میں مثبت تبدیلی نظر آئے گی، ریاست کو کمزور کرنے والے دور جبکہ مضبوط کرنے والے قریب آئیں گے۔

’وی نیوز‘ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ عوام کو اگر پیپلز پارٹی سے جان چھڑانی ہے تو اس کے خلاف کھڑے ہونے والے امیدوار کو کامیاب کریں۔ ’اس وقت سیاسی طور پر متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم پاکستان) سرگرم ہے اور اس نے اپنی سرگرمیوں کو ایک بوسٹ لگا دیا ہے۔ گزشتہ 7 سال میں ایک منظم طریقے سے ایم کیو ایم کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ایم کیو ایم متحرک اور مضبوط ہو کر سامنے آئی ہے‘۔

حسان صابر نے کہا کہ اگر دیکھا جائے تو گزشتہ 3 ماہ کے دوران ایم کیو ایم کراچی کے مختلف حلقوں میں سرگرم دکھائی دے رہی ہے، ٹاؤن کی سطح پر ہم جلسے کر رہے ہیں، ہم نے 29 ٹاؤنز میں اس شہر کو تقسیم کیا ہے، جس میں 6 ٹاؤنز میں ہمارے جلسے ہو چکے ہیں جن میں لوگ بھرپور طریقے سے شرکت کر رہے ہیں۔

جوڑ توڑ سیاسی حکمت عملی ہے

انہوں نے کہاکہ جس جوڑ توڑ کی بات کی جا رہی ہے یہ سیاسی حکمت عملی ہے، گزشتہ 5 برس میں جو سیاست کے ساتھ ہوا ہے، جو کیچڑ ایک دوسرے پر اچھالا گیا ہے اس کو صاف کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک نئی حکمت عملی ترتیب دی جائے، پاکستان کو ترقی دینے کے لیے اور اپنی ساکھ کو بچانے کے لیے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ نئے طریقے سے میدان میں اترا جائے۔

حسان صابر نے کہا کہ ایم کیو ایم گزشتہ 40 سال سے سیاست کر رہی ہے لیکن کبھی بھی الیکشن سے قبل کسی سیاسی جماعت سے اتحاد نہیں کیا گیا کیونکہ ہم الیکشن لڑ کر وفاق اور صوبے میں اپنی نمائندگی ظاہر کرتے تھے اور اس کے بعد فیصلہ کیا جاتا تھا کہ کس طرف جانا ہے لیکن اس بار حالات کا تقاضا ہے کہ ایک جامع پلان ترتیب دیا جائے۔ ’وہ پلان یہ ہے کہ اگر کوئی جماعت اپنے آپ کو اس قابل سمجھے کہ وہ اقتدار میں آسکتی ہے تو وہ الیکشن سے قبل ہم سے بات کرے اور پاکستان مسلم لیگ ن نے ہم سے بات کی ہے، ہم نے ان کے سامنے یہ رکھا ہے کہ اس ملک اور یہاں میں رہنے والوں کی بہتری اس بات میں ہے کہ آئین میں ترامیم کی جائیں، جس میں سب سے اہم یہ کہ مقامی حکومت کو مضبوط بنایا جائے‘۔

حسان صابر کہتے ہیں کہ میں وفاق اور صوبے کو مضبوط کرنا چاہتا ہوں لیکن اس سمجھوتے کے تحت نہیں کہ ضلع میں رہنے والوں کا اختیار صوبے میں ہی روک دیا جائے اور ضلع کا کام منجمد ہو کر رہ جائے۔

لوکل حکومت کے اختیارات کو آئین میں وضع کرنا ہو گا

انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق پاکستان میں 3 طرح کی حکومتیں ہیں، وزیر اعظم، وزیراعلیٰ کے طریقہ کار کو وضع کیا گیا ہے لیکن لوکل گورنمنٹ پر آئین خاموش ہے، ایم کیو ایم یہ چاہتی ہے کہ آئین میں تیسری حکومت یعنی لوکل گورنمنٹ کے اختیارات اور معاملات کو بھی وضع کیا جائے اور لوکل گورنمنٹ کو پورے پاکستان میں تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ ایک بااختیار ضلع مضبوط پاکستان کی علامت بنے۔

حسان صابر نے کہاکہ 2010 میں جب لوکل گورنمنٹ کی مدت مکمل ہوئی تو اس کے بعد 5 سال تک ایڈمنسٹریٹر کے ذریعے سے سسٹم کو چلایا گیا، اور پھر جب 2020 میں مدت مکمل ہوئی تو 2023 میں انتخابات کرائے گئے یہ کہاں کا مذاق ہے۔ ’جب آپ اختیارات نچلی سطح پر منتقل کر دیں گے تو کسی نیب کی ضرورت نہیں پڑے گی، اگر این ایف سی کے تحت فنڈز نچلی سطح تک پہنچ جائیں اور پھر بھی کام نہیں ہوگا تو کوئی اور نہیں علاقے کے لوگ ہی اپنے کونسلر یا یو سی کے چئیرمین کو گریبان سے پکڑیں گے‘۔

ایم کیو ایم کی سپورٹ کے بغیر کوئی حکومت بنتی نہ چلتی ہے

حسان صابر کا کہنا تھا کہ گزشتہ 40 برسوں میں اگر دیکھا جائے تو ایم کیو ایم کی سپورٹ کے بغیر کوئی حکومت نہیں بنی اور اگر ایم کیو ایم نے اپنی سپورٹ واپس لی تو وہ چل بھی نہیں سکی، جو بھی حکومت بنائے گا اس کے سامنے ہمارے یہ مطالبات ہوں گے۔ جن میں پہلا لوکل گورنمنٹ کا نظام آئین میں وضع کرنا، دوسرا مطالبہ یہ کہ جب تک بلدیاتی انتخابات نہ ہوجائیں تب تک عام انتخابات نہیں ہونے چاہییں، تیسری ترمیم ہم یہ چاہتے ہیں کہ این ایف سی کے تحت صوبوں کو ملنے والا فنڈ وزیراعلیٰ کے پاس نہیں جانا چاہیے۔ کیوں کہ اچھی خاصی رقم عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ نہیں ہو سکتی۔ یہ ایسے مطالبات ہیں جو ہر پاکستانی چاہتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ گزشتہ دور حکومت میں بھی ہم یہ بل جمع کراچکے تھے لیکن وہ فلور پر کبھی آیا ہی نہیں اور اس بار ہم اس بل کو مزید بہتر انداز میں لے کر آرہے ہیں اور الیکشن سے قبل ہی اس پر ہم بات کر رہے ہیں۔ ہم وفاق میں اسے سپورٹ کریں گے جو آئین میں ترامیم کے لیے ہمارے ساتھ ہوگا، اس کے علاوہ ہمیں وزارتوں سمیت کچھ بھی نہیں چاہیے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کے حوالے سے حسان صابر کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی ہی تمام مسائل کی موجد ہے، پیپلز پارٹی کو جتنا موقع ملا ہے شاید ہی پاکستان میں کسی اور جماعت کو ملا ہو۔ یہ اگر سندھ سمیت پورے ملک میں رہنے والوں کا بھلا کرنا چاہتے تو کر سکتے تھے۔ ’اگر 18 ویں ترمیم ہو سکتی ہے تو مقامی حکومت کو مضبوط بنانے کے لیے ترمیم کرنا کون سا مشکل کام تھا‘۔

انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے بنائے گئے لوکل باڈی ایکٹ میں تمام اختیارات اپنے پاس رکھے گئے ہیں۔ جبکہ آئین کہتا ہے کہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کرنا ہو گی۔ یہ جاگیردارانہ ذہنیت ہے۔ یہ تو لوکل نمائندے کو اپنے ساتھ نہیں بٹھائیں گے، نہ ہی اس سے بات کریں گے۔

عوام پیپلزپارٹی سے جان چھڑانے کے لیے ان کے مخالف اتحاد کو سپورٹ کریں

حسان صابر نے کہا کہ ہم نے ن لیگ سے تمام معاملات پر بات کی ہے اور انہوں نے ہمارے مطالبات کو قبول کیا ہے۔ اس کے علاوہ سندھ کی تمام جماعتوں کو ہم نے اس معاملے پر دعوت دی ہے کہ ایک پلیٹ فارم پر آجائیں، ہم نے جماعت اسلامی اور پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی دعوت دی ہے۔

سیٹ ایڈجسٹمنٹ فارمولے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ جہاں ہمیں لگے گا کہ ہماری کسی اتحادی جماعت کا ووٹ بینک کسی حلقے میں زیادہ ہے تو ہم اسے سپورٹ کریں گے، اگر کہیں ہم جیت نہیں سکتے تو کسی کے ذریعہ ہروا تو سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم ووٹ ضائع نہیں کریں گے، اگر اس صوبے کے عوام نے پیپلز پارٹی سے جان چھڑانی ہے تو ان کو چاہیے پیپلز پارٹی کے خلاف بننے والے اتحاد کو سپورٹ کریں۔ پُرامید ہوں کہ تبدیلی آ کر رہے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp