آج ہی کے دن 30 نومبر 1967 کو لاہور کے علاقے گلبرگ میں مین مارکیٹ کے بالکل سامنے مین بلیوارڈ پر واقع ڈاکٹر مبشر حسن کی رہائش گاہ پر پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
عوام دوست پارٹی نے آمرانہ قوتوں کے خلاف پاکستان کے عوام میں ایک نئی تحریک پیدا کردی۔ ذوالفقار علی بھٹو اپنی کرشماتی شخصیت، ذہانت اور ڈپلومیسی کی بنا پر دنیا کے سیاسی منظر نامے پر ایک منفرد مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
دنیا بھر میں بھٹو اور ان کی سیاسی جماعت کے چرچے ہونے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کے معاشی، سماجی اور سیاسی استحصال کے خلاف پیپلز پارٹی عوام کی آواز بن کر ایسے ابھری کہ پاکستان کے ہر کونے میں صرف ایک ہی جماعت کا غلبہ ہو گیا۔
’اسلام ہمارا دین، جمہوریت ہماری سیاست، سوشلزم ہماری معیشت اور عوام طاقت کا سرچشمہ‘ جیسے پارٹی نعروں سے عوامی سوچ کی عکاسی ہوئی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کا سب بڑا کارنامہ ملک کو ایک متفقہ آئین فراہم کرنا تھا۔ 14 اگست 1973 کو نئے دستور نے ملک کو ایک نئی وحدت عطا کی۔
1974 میں پاکستان میں پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی تو پاکستان کا امیج دنیا بھر میں بالکل واضع ہو گیا اس کے بعد ملک میں جوہری توانائی کا منصوبہ شروع کیا گیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی ایک ابھرتی ہوئی طاقت بنتی دکھائی دینے لگی تو جمہوریت دشمن قوتوں نے نئی سازشیں شروع کردیں۔ 5 جولائی 1977 کو ایک جمہوری حکومت کو ختم کرکے ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا گیا اور اپریل 1979 میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔
اس کے بعد آئین کے تقدس کو پامال کرنے کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جمہوری حکومتوں کی ایسی بے توقیری کی گئی کہ آج تک عوام کے منتخب کسی وزیراعظم کو اپنی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔
پاکستان پیپلز پارٹی پر ظلم کے ایسے پہاڑ ٹوٹنا شروع ہوئے کہ مرتضٰی بھٹو کے قتل کے بعد 2007 میں بے نظیر بھٹو کو ایک بم دھماکے میں شہید کردیا گیا۔
پیپلز پارٹی کے بانیوں نے ایک ایسی پارٹی کی بنیاد رکھی جس کا بنیادی مقصد مساوی معاشرے کا قیام، عوام کی حکمرانی، آئینی و پارلیمانی جمہوری نظام کے ذریعے ملک کے پسے ہوئے طبقات کے مفاد کا تحفظ اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا تھا۔
’روٹی، کپڑا اور مکان‘ کے نعرے نے عوام میں ایک نئی امید پیدا کردی جو ملک کی استحصالی قوتوں کو ایک آنکھ نہ بھائی۔
آج پاکستان پیپلز پارٹی 56 واں یوم تاسیس منا رہی ہے، ان حالات میں پارٹی کو بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے۔ یہ جماعت آج اپنی پالیسیوں کی وجہ سے سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
آج پارٹی کے بیشتر رہنماء ناخوش نظر آتے ہیں۔ آصف علی زرداری کی قیادت پر مختلف قسم کے تحفظات سامنے آ رہے ہیں۔ آصف زرداری اپنے بیٹے بلاول بھٹو کو پارٹی قیادت حوالے تو کر چکے ہیں مگر تمام فیصلے وہ خود کرتے ہیں۔
ایسا دور بھی آیا کہ پنجاب میں جلسوں میں زرداری کی تصاویر کے بغیر پوسٹرز اور بینرز لگا کر پارٹی کو پنجاب میں دوبارہ فعال کرنے کی کوشش کی گئی جو کہ ناکام رہی۔
آصف زرداری اب بھی بلاول کو بچہ کہہ کر پکارتے ہیں جس کی وجہ سے بلاول بھٹو کا سیاسی قد بڑھنے کی بجائے کم ہو رہا ہے۔
حال ہی میں بلاول بھٹو نے ملک کے بزرگ سیاستدانوں کو مشورہ دیا کہ وہ سیاست سے کنارہ کشی کریں اور نوجوانوں کو آگے آنے دیں۔ جس کے جواب میں ان کے والد آصف علی زرداری نے اپنے بیٹے کو نا تجربہ کار قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ ٹرینڈ نہیں ہیں۔
اب یہ تاثر تقویت پکڑ رہا ہے کہ بلاول بھٹو وہ کہتے اور کرتے ہیں جو ان کے والد آصف زرداری انہیں کہتے ہیں اور پیپلز پارٹی میں تمام فیصلوں کا اختیار اب بھی آصف علی زرداری کے پاس ہے۔
ایسی صورت حال میں نوجوان ووٹرز کو پارٹی کی طرف راغب کرنا ایک کٹھن مرحلہ ثابت ہوگا۔ اس کے مقابلے میں عمران خان نوجوانوں کے لیڈر بن چکے ہیں اور ان کی طاقت کا توڑ پیپلز پارٹی سمیت پاکستان کی کسی جماعت کے پاس نہیں کیونکہ کسی جماعت نے کبھی نوجوانوں کے مسائل پر بات ہی نہیں کی۔