گلگت بلتستان اپنے خوبصورت نظاروں، دلکش وادیوں، بلند و بالا برفیلے پہاڑوں اور گہری گھاٹیوں کی بدولت وطن عزیز کے دیگر جنت نظیر خطوں میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ شمالی علاقہ جات کہلانے والے اس خطے میں خون جما دینے والی سردی ہر شئے منجمد کردیتی ہے اور وہاں کے باسیوں کی زندگی بھی گویا ٹھہر سی جاتی ہے۔ ایسے میں مقامی باشندے کس طرح اپنے روز و شب بتاتے ہیں یہ بات جہاں دلچسپی سے خالی نہیں وہیں انہیں درپیش متعدد مشکلات پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے گلگت سے تعلق رکھنے والے مدرس اور معروف شاعر عبدالحفیظ شاکر نے کہا کہ ’ہم سال بھر جو کماتے ہیں وہ ساری کمائی سردیوں کے مہینوں میں خرچ ہوجاتی ہے کیونکہ منفی درجہ حرارت اور برفباری سے نبرد آزما ہوتے ہوئے زندگی گزارنا کرنا بڑا مشکل کام ہے‘۔
گلگت بلتستان میں سردیوں میں درجہ حرارت بڑی حد تک گر جاتا ہے اور اکثر منفی رہتا ہے جس میں زندگی کی بقا کی جنگ لڑنا ایک بہت ہی مشکل کام ثابت ہے۔ 10 اضلاع پر مشتمل گلگت بلتستان پہاڑوں سے گھرا ہوا علاقہ ہے۔ دنیا کی دوسری بڑی چوٹی کے ٹو، نانگاپربت اور راکاپوشی، تینوں پہاڑی سلسلوں ہمالیہ قراقرم اور ہندوکش کے سنگم پر ہیں اور اس کے علاوہ سینکڑوں پہاڑ اس علاقے میں پائے جاتے ہیں۔
یہاں سے بہنے والا دریائے سندھ آج بھی پاکستان کی سیرابی کا اہم ذریعہ ہے۔ تاہم یہ تمام صفات مشکلات میں تبدیل ہوجاتی ہیں جب درختوں اپنے پتے کھوکر خزاں اوڑھ لیتے ہیں جس سے سردیوں کا انسانوں سے مقابلے کا آغاز ہوتا ہے۔
شاہراہ قراقرم سے پہلے آمدورفت کیسے ہوتی تھی؟
گلگت بلتستان کی تاریخ اور قدیم رسم و رواج پر بطور محقق کام کرنے والے شاعر عبدالخالق تاج کہتے ہیں کہ پہلے کے زمانے میں تو بابوسر آمد و رفت کا واحد ذریعہ ہوا کرتا تھا کیونکہ شاہراہ قراقرم موجود نہیں تھی۔
بابوسر ٹاپ تقریباً 9 ماہ بند رہتا تھا۔ گرمیوں میں 3 مہینے کے لیے راستہ کھلا ہوتا تھا جس پر جیپیں چلا کرتی تھیں جن کے ذریعے چائے نمک و دیگر ضروری اشیا خورونوش یہاں لاکر ذخیرہ کرلی جاتی تھیں۔ باقی 9 مہینوں کے لیے ان ہی اشیا پر گزار کیا جاتا تھا۔
اب بھی سردیوں سے پہلے لکڑیاں جمع کی جاتی ہیں اور گرم کپڑوں کا بھی بندوبست کرلیا جاتا ہے۔ خواتین کے گرم لباس کا نام فرنگی جبکہ مردوں کے کپڑے کا نام ملیشہ ہوتا ہے۔ گھروں میں مائیں بہنیں بنیان، ٹوپی، جرابیں دستانے وغیرہ خود بناتی ہیں جو دیسی اون سے تیار کیے جاتے ہیں۔
سردیوں میں مکان کی نچلی منزل کا استعمال
بلتستان کے ضلع اسکردو سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر و مصنف احسان علی دانش کہتے ہیں کہ روایتی طور پر گلگت بلتستان خصوصاً اسکردو میں لوگ 2 منزلہ گھروں میں رہتے رہے ہیں جن کے نام بھی الگ ہوتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ سردیوں میں نچلی والی منزل متقل ہوجایا کرتے ہیں اور گرم لباس بھی نکل جایا کرتے ہیں۔
گھر اور محلے کے لیے جانوروں کا ذبیحہ
سردیوں کی آمد کے موقع پر2 جانور ذبح کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک اپنے گھر کے لیے اور دوسرا اہل محلہ کے لیے اعلانیہ ذبح کیا جاتا ہے۔ یہ خزاں کے دنوں میں ہوتا ہے جب نالوں سے مال مویشی واپس لے کر آتے ہیں۔ ذبح کیے گئے جانوروں کا گوشت پوری سردیوں تک چلتا ہے۔ گوشت کے استعمال سے سخت سردیوں میں جسم میں حرارت رکھنے میں مدد ملتی ہے۔
کھانے کے معمولات بھی سردیوں کی آمد کے ساتھ تبدیل ہوجاتے ہیں اکثر گندم کے آٹے کی بجائے ’براؤ‘ اور مکئی کا آٹا استعمال کیا جاتا ہے۔
سال بھر کی کمائی سردیوں میں خرچ کی جاتی ہے
سال بھر جو کمایا جاتا ہے وہ سردیوں میں خرچ کیا جاتا ہے۔ ماضی میں سردیوں میں کام کاج نہیں ہوتا تھا تو صرف گھر بیٹھے دن گزارتے تھے۔ ہر آدمی کو فکر رہتی تھی کہ سردیاں گزارنے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں۔ سنہ 1970 کے بعد سے سیمنٹ کے گھر بننے شروع ہوئے تاہم گھروں میں اب بھی مٹی کے کم از کم 2 کمرے بنائے جاتے ہیں تاکہ درجہ حرارت معتدل رکھا جاسکے۔
عبدالحفیظ شاکر کا کہنا ہے کہ سارا سال جو کام کاج کیا جاتا ہے اس کا مقصد ہی سردیوں کو اچھی طرح گزارنا ہوتا ہے اور خزاں کے دنوں میں اس کو حتمی شکل دی جاتی ہے۔ ان دنوں میں فصل، خشک پھل، سبزیاں، خشک گوشت اور لباس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ سردیوں میں موسم انتہائی تکلیف دہ ہوجاتا ہے جس سے بچاؤ کے لیے جلانے کے لیے لکڑی ، گرم لباس و بستر، انگیٹھی اور روایتی اوزار و آلات کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ نسالو سردیوں کی ناگزیر رسم ہوا کرتی ہے جو صاحب استطاعت افراد تو ہر حال میں سرانجام دیتے ہیں۔ نسالو کے خشک گوشت کا اپنا ہی ایک مزہ ہوتا ہے۔
اسلام آباد میں زبانوں و ثقافت پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم فورم فار لینگویج انیشیٹیوز کے کارکن امیر حیدر بگورو کہتے ہیں کہ تاریخی و روایتی اعتبار سے سردیوں کی الگ ایس او پیز ہوتی ہیں جن کے بغیر سردیاں گزارنا ممکن نہیں۔
گوشت اور سبزیاں محفوظ کرلی جاتی ہیں
پرانے زمانے میں برف اتنی پڑتی تھی کہ گھر کے دروازے تک بند ہوجاتے تھے اور پانی جم جانا معمول کی بات تھی ایسے میں سبزی سے لے کر گوشت اور پھلوں تک کو محفوظ کیا جاتا تھا تاکہ سخت موسمی حالات کو گزارنے میں مدد مل سکے۔
مظہر علی گلگت میں قیمتی پتھروں کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سردیوں کی آمد کے سلسلے میں تیاریوں کو سنگال کہتے ہیں۔ گرمیوں میں فصل کاٹی جاتی ہے جس سے اپنی خوراک کے علاوہ مال مویشی کی خوراک بھی محفوظ کرلی جاتی ہے۔
خواتین کا اونی دستانے اور ٹوپیاں بُننا
سردیوں میں چونکہ چکی پر برف جمنے کا خدشہ ہوتا ہے اس لیے پہلے ہی گندم مکئی اور دیگر کو پیس کر ذخیرہ کرلیا جاتا ہے۔ درہم، ڈنگ درہم، درہم فٹی، نسالو جیسی ڈشوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ خواتین بیٹھ کر مردوں اور بچوں کے لیے دستانے، جرابیں اور ٹوپیاں وغیرہ بناتی ہیں۔ دیسی خشک پھل کو الگ کیا جاتا ہے جسے شام کے بعد سجی محفل میں استعمال کرتے ہیں۔
عبدالخالق تاج نے سردیوں کے خوراک کے بابت بتایا کہ گندم مکئی اور چاول معمول ہوتا ہے۔ لوگ چاول خود ہی اگاتے ہیں اسی چاول کو کوٹ پیٹ کر صاف کر کے اس کو رکھا جاتا ہے۔ پھر نسالو کی باری اتی ہے۔ یہ زمانہ قدیم سے ہی ہے کہ کوئی امیر ہو تو وہ اپنے پیسے دے کر اورغریب قرضہ تک لے کر نسالو ضرور کرتا تھا تاکہ سردیوں میں خوراک کی قلت نہ ہو۔ سردی کا علاج بھی یہی ہوتا ہے تو اچھا کھانا کھائیں تاکہ جسم میں قوت مدافعت بڑھ جائے۔
سب کا ایک مرکزی کمرے میں سونا
سردیوں میں گھر کے ایک مرکزی کمرے میں سب جمع ہوتے ہیں اور وہیں پر بستر ڈال کر سوتے ہیں کیونکہ ہر کمرے کے درجہ حرارت کو بہتر کیے رکھنا ممکن نہیں ہوتا اس لیے ایک مرکزی کمرے کا انتخاب کرتے ہیں۔ وہیں پر باورچی خانہ بھی ہوتا ہے اور کھانا کھانے کا سلسلہ بھی اسی میں ہوا کرتا ہے۔
پھر رات کو دادیوں سے ’شیلوکے‘ یعنی لوک کہانیوں کے سننے کا رواج بھی ہے جس میں تمام بچوں کو جمع کیا جاتا ہے اور انہیں کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔
جس جس گھر میں ’شیلوکے‘ سناتے وہاں پر بچوں کو ڈرائی فروٹ بھی ملا کرتے ہیں اور چائے کا بھی انتظام ہوتا ہے۔ چائے کے ساتھ مکئی کی روٹی بھی کھائی جاتی ہے اور سردیاں اسی طرح گزرتی ہیں۔