فیصل آباد کے ایک گاؤں کھیالہ کلاں کے رہنے والوں نے اپنے گاؤں کے قدیمی سکھ باشندوں کےاحترام میں 100 سال قدیم گردوارے کو اصل شکل میں بحال کر کے مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کی مثال قائم کر دی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ گردوارے کے شمالی جانب گاؤں کی جامع مسجد جبکہ مشرقی جانب گاؤں کے مختلف بزرگ افراد کے مزار اور آخری آرام گاہیں موجود ہیں لیکن گاؤں والوں کی طرف سے تمام مذہبی مقامات کا یکساں احترام کیا جاتا ہے۔
یہ گردوارہ بابا دت مال جی کی یاد میں 18ویں صدی کے آخری عشرے میں اس گاؤں کے آبادکار بھنگو سکھ خاندان نے تعمیر کروایا تھا۔
مزید پڑھیں
بابا دت مال جی کا تعلق بھنگو خاندان سے تھا اور وہ مشرقی پنجاب کے ضلع امرتسر کی تحصیل اجنالہ کے گاؤں کھیالہ کے رہنے والے تھے اور چھٹے سکھ گرو شری ہرگوبند صاحب کی امرتسر میں ہونے والی پہلی جنگ میں حصہ لیتے ہوئے مارے گئے تھے۔
بعدازاں 1890 میں جب انگریز راج کے دوران ساندل بار میں لائل پور کے نام سے نیا شہر آباد کیا گیا تو چک 57 ج،ب کی اراضی آبادکاری کے لیے بھنگو خاندان کو الاٹ کی گئی تھی۔
بھنگو خاندان نے امرتسر سے لائل پور ہجرت کرنے کے بعد اس گاؤں کا نام بھی اپنے آبائی گاؤں کے نام پر کھیالہ رکھا اور مشرقی پنجاب میں اپنے آبائی گاؤں کھیالہ سے لائی گئی اینٹوں کے ذریعے یہاں ایک کمرے پر مشتمل یہ گردوارہ تعمیر کیا۔
نصف صدی کے بعد 1947 میں بھنگو خاندان کو ہندوستان کی تقسیم کے وقت ایک مرتبہ پھر ہجرت کرنا پڑی اور وہ لائل پور کے گاؤں چک 57 ج، ب کھیالہ سے مشرقی پنجاب کے ضلع جالندھر کی تحصیل بھوگپور کے دیہات چاڑھ کے، کھوج پور، چمیاری چک شکور، راستکو اور قریشیاں بلاک منتقل ہو گئے تھے۔
بھنگو خاندان سے تعلق رکھنے والے صحافی کا سوشل میڈیا پر ماسٹر اللہ رکھا سے رابطہ ہوا
کچھ عرصہ قبل بھنگو خاندان سے تعلق رکھنے والے صحافی بلوندر سنگھ بھنگو کا رابطہ سوشل میڈیا پر چک 57 ج،ب کھیالہ کے ماسٹر اللہ رکھا سے ہوا۔
انہوں نے ماسٹر اللہ رکھا سے گردوارہ بابا دت مال جی کی ویڈیو بنا کر بھیجنے کی فرمائش کی جس پر ماسٹر اللہ رکھا کو پتا چلا کہ گاؤں کی جس قدیم عمارت کو اہل علاقہ ’بابا مڑھ‘ کے نام سے پکارتے تھے وہ درحقیقت ایک گردوارہ ہے۔
بعدازاں ماسٹر اللہ رکھا نے گاؤں کے دیگر افراد کی مدد سے گردوارے کو اصل شکل میں بحال کر کے اس کی تاریخ کے بارے میں وہاں ایک تحریر بھی آویزاں کروا دی ہے تاکہ لوگوں کو اس جگہ کی تاریخ اور اہمیت کے بارے میں معلوم ہو سکے۔
ماسٹر اللہ رکھا بتاتے ہیں کہ 1947 تک یہ سارا گاؤں کچا تھا اور جو چند عمارتیں پکی تھیں وہ بھی وقت گزرنے کے ساتھ ختم ہو چکی ہیں۔ اور اب صرف یہ ایک گرودوارہ باقی بچا ہے۔
1947 سے یہ جگہ بطور تکیہ استعمال ہو رہی ہے، ماسٹر اللہ رکھا
انہوں نے بتایا کہ 1947 سے یہ جگہ بطور تکیہ استعمال ہو رہی ہے اور گاؤں کے بزرگ افراد یہاں آ کر بیٹھا کرتے تھے۔
’بابا فضل سائیں کا گھر یہاں قریب ہی ہے، پہلے وہ اس گردوارے کی دیکھ بھال کرتے تھے ان کے بعد یہ گردوارہ ایسے ہی پڑا ہوا تھا، اس کا پلستر اکھڑ گیا تھا، دروازہ بھی نہیں تھا‘۔
ماسٹر اللہ رکھا کے مطابق 1947 کے بعد اس گاؤں میں مشرقی پنجاب کے مختلف اضلاع سے آنے والے مسلمان مہاجروں کو آباد کیا گیا تھا جبکہ پرانے لوگوں میں سے چند غیر کاشتکار گھرانے ہی وہاں رہائش پذیر تھے اور بھنگو خاندان کے زیادہ تر لوگ واپس ہندوستان چلے گئے تھے۔
’دونوں طرف کے لوگوں کا اب سوشل میڈیا کے ذریعے واٹس ایپ پر ایک دوسرے سے رابطہ ہے، میری بھی ان سے گفتگو ہوتی رہتی ہے جو بابا جی گردوارے پر ہوتے ہیں وہ بھی ان سے رابطے میں رہتےہیں‘۔
سکھ کمیونٹی یہاں آنا چاہتی ہے مگر ویزوں کا مسئلہ درپیش ہے
ان کا کہنا تھا کہ مشرقی پنجاب میں رہنے والے بھنگو خاندان کے لوگ خود گاؤں آ کر اس گردوارے میں ماتھا ٹیکنا چاہتے ہیں لیکن انہیں ویزا نہیں ملتا۔
’کینیڈا، برطانیہ اور امریکا سے سکھ رابطہ کرتے ہیں لیکن انہیں ویزے کا مسئلہ درپیش ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اب پرانی نفرتیں ختم ہوں اور لوگوں کو آپس میں ملنے جلنے کا موقع ملے۔
’ٹھیک ہے بارڈر رہیں، ان کا اپنا ملک ہے، ہمارا اپنا ملک ہے، لیکن اتنی سختی نہیں ہونی چاہیے کہ کسی کو ویزا ہی نہ ملے‘۔
گاؤں کے لوگ گردوارے کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اشرف بیگ
اسی گاؤں کے رہائشی 57 سالہ محمد اشرف بیگ نے بتایا کہ گاؤں کے لوگ اس گردوارے کو بہت احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
’ہم بھی جب یہاں سے گزرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں خیال آتا ہے کہ یہ وہی عمارت ہے جو پاکستان بننے سے پہلے کی ہے اور ہمارے بزرگ بھی اس سے بڑی محبت کرتے رہے ہیں۔ ہمارے دل میں بھی محبت ہے کہ جو لوگ پہلے یہاں رہتے تھے ان کی یہ نشانی ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ جب بھی اس گاؤں کا کوئی پرانا باشندہ آتا ہے تو وہ اس گردوارے کی نشانی سے اپنے گھر کو تلاش کر لیتا ہے۔
’یہاں سے وہ حساب لگا لیتے ہیں کہ اس عمارت کے دائیں جانب یا بائیں جانب ہمارا گھر ہوتا تھا‘۔
بھنگو خاندان کے افراد یہاں آئیں خوش آمدید کہیں گے
ان کا کہنا تھا کہ وہ بھنگو خاندان کے افراد کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنے گاؤں آئیں وہ انہیں خوش آمدید کہیں گے۔
’ایک دو مرتبہ سکھ حضرات آئے ہیں تو لوگوں نے ان کا بڑا پرتپاک استقبال کیا ہے۔ ہر بندہ ان کو اپنے ہاں مہمان ٹھہرانے کا خواہشمند تھا۔ لوگ ان کے ساتھ تصویریں بناتے تھے‘۔
انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ دونوں طرف سے لوگ آئیں، جائیں اور اپنی پرانی جگہوں کو دیکھیں، اپنے دوستوں سے ملیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب انسان بوڑھا ہو جاتا ہے تو پھر وہ اپنے بچپن کو بہت یاد کرتا ہے۔
’یقیناً وہ لوگ بہت ترستے ہوں گے کہ ہم جائیں اور اپنا گاؤں دیکھیں۔ ہم بھی اپنے بزرگوں سے سنتے رہے ہیں کہ وہ وہاں کیسے رہتے تھے اور ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے جب اپنے گاؤں کو یاد کرتے تھے‘۔
حکومتوں کو ویزا پالیسی میں نرمی کرنی چاہیے
محمد اشرف کا کہنا تھا کہ سرحد کے دونوں طرف لوگ تقسیم کے کربناک واقعات کو بھول کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں، اس لیے دونوں ممالک کی حکومتوں کو بھی چاہیے کہ وہ باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے ویزا پالیسی نرم کریں۔