یہ اس وقت کی بات ہے جب ہمارا جوش و جنوں ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ لگتا یوں تھا آج تو جیسا تیسا اپنا ہی ہے مگر کل کو ہم نہ ہوں گے تو کون ہوگا۔ 2005 میں این سی اے لاہور میں ویڈیو پروڈکشن کلاس میں ایک دن سکرین پلے پڑھانے کے لئے میونخ یونیورسٹی کے پروفیسروولف گینگ لینگذ فیلڈ آئے۔ انھوں نے طالب علموں کو چھان پھٹک کر دیکھا۔ مجھے کہا کہ اپنی کتاب میں سے ایک پنجابی کہانی انگریزی میں ترجمہ کر کے لاؤ۔ میں نے اپنے دوستوں نعیم ملک اور خاص طور پر عامر نسیم صاحب کے تعاون سے کسی نہ کسی طرح ایک مختصر کہانی کا انگریزی میں ترجمہ کروا ہی لیا۔ اب پروفیسر نے ترجمہ دیکھا تو مجھے کہا کہ میں ایک سکرین پلے اور سکرین پلے رائٹنگ کا ایک سال کاخصوصی کورس شروع کر رہا ہوں۔ تم اس میں ضرور داخلہ لو۔
انٹرویو بورڈ، پروفیسر لینگذ فیلڈ، سرمد صہبائی، امجد اسلام امجد اور حسینہ معین پر مشتمل تھا۔ بہرحال ہم دس لوگ منتخب ہو گئے۔
احمر سہیل بسراء، نعیم ربّانی، احمد نوید، فہیم، خنساء ناظم، آفرین حسین، بیلا(نبیلہ ملک)، وجیہہ فاطمہ یہ سب لوگ ابتداء میں کلاس کا حصہ تھے۔ بعد ازاں درمیان میں کہیں 2 لوگ چھوڑ گئے۔ دسویں ساتھی کا نام اب یاد نہیں آرہا یا شاید ہم تھے ہی 9 لوگ ۔
کلاس روز نہیں ہوتی تھی بل کہ 2 مہینوں میں 10 روز کلاس ہوتی۔ آپ اپنے ٹیچیر سے بیچ میں بھی مل سکتے تھے۔ ویسے اگلی کلاس تک آپ نے دیا گیا کام کرنا ہوتا تھا۔ کورس کے بیچ میں کہیں سنجیدہ مزاج عارف وقار صاحب ہمیں مکالمہ پڑھانے آئے۔
ایک دن انھوں نے ہمیں ایڈیٹنگ کے لئے کچھ مواد دیا۔ ایڈیٹنگ کے بعد جب انھیں تحریر واپس کی تو پڑھنے کے بعد مجھے کہنے لگے: “لگتا ہے آپ پہلے بھی ایڈیٹنگ کا کام کرتے رہے ہیں۔”
ظاہر ہے مجھے اچھا لگا۔ تعریف کسے اچھی نہیں لگتی۔ عارف وقار صاحب کے نام سے تو ہم بچپن سے واقف تھے ۔ شاہد ملک، ثریا شہاب، ماہ پارہ صفدر، نعیمہ احمد مہجور، شفیع جامی نقی، علی احمد، یاورعباس، وسعت اللہ خان اور کئی ایسے نام جو تقریباً ہر رات بی بی سی سے نشر ہوتے۔ نانا جی یا ماموں ریڈیو سُنتے تو یہ نام ہماری سماعتوں کا حصہ بن چُکے تھے۔
عارف وقار صاحب سے ایسا تعلق بنا کہ آج تک وہ ویسے ہی قائم ہے۔ بیچ میں ایک وقفہ ایسا آیا کہ جب میرے دل میں ان کے لئے تھوڑا میل آگیا۔
ہوا کچھ یوں کہ ہماری کلاس پروفیسر لینگذ فیلڈ نے بالکل جدید انداز میں ڈیزائن کی تھی کہ ایک ٹیچرایک سٹوڈنٹ ہو۔ چونکہ استاد تھے لہذا ایک ٹیچر 2 سٹوڈنٹ سے کام چل نکلا۔ عارف وقار اور “اندھیرا اُجالا” والے یونس جاوید صاحب بعد میں آئے تھے۔
ویسے تو سارے ہی استاد تھے مگر میرے ٹیچر پروفیسر لینگذ فیلڈ تھے اس لئے ان سےمیری انسیت بھی زیادہ تھی۔ پروفیسر صاحب کے نام پر اس وقت بھی جرمنی میں فلم ایوارڈ ہے۔ ہالی وڈ میں “یونیورسل سولجر” اور ” ڈے آفٹر ٹو مارو” کا ڈائریکٹر رونالڈ ایمرخ بھی پروفیسر کا سٹوڈنٹ تھا۔ وہ چین، گھانا، مصر اور پتا نہیں دنیا میں کہاں کہاں پڑھا چُکے تھے۔ بہرحال پہلے کورس کے بعد پروفیسر کی این سی اے انتظامیہ سے ان بن ہوگئی اور وہ اپنے وطن واپس چلے گئے۔ اگلا کورس عارف وقار صاحب کی سربراہی میں شروع ہو مگر وہ رستے میں ہی دم توڑ گیا۔ سُنی سُنائی بات یہ تھی کہ شاید پروفیسر صاحب کو فارغ کروانے میں عارف وقار صاحب کا بھی ہاتھ ہے۔ گو کہ کئی برس بعد باتوں باتوں میں عارف صاحب سے اس بات کا اظہار بھی کیا تو انھوں نے ایسی کسی بھی بات کی تردید کی۔ معاملے کی ساری تفصیل جان کر میرا دل صاف ہوگیا۔
عارف وقار ایک شان دار ڈائریکٹر، اعلیٰ لکھاری، براڈ کاسٹر، نہایت نفیس اور وضع دار انسان ہونے کے علاوہ قابل اُستاد بھی ہیں۔ ان کے کریڈٹ پر کام دیکھ کر رشک آتا ہے۔ فلم میں انھوں نے ڈائریکٹر ایس سلیمان کو زمانہِ طالب علمی میں اسسٹ کیا۔ بعد ازاں آزاد اخبار میں بطور صحافی کام کیا۔ پھر 1971 میں ریڈیو پاکستان کوئٹہ سے بطور پروڈیوسر وابستہ ہوگئے۔ 1973 میں پی ٹی وی کے پروڈیوسر بن گئے۔ الف نون کی پانچ کے قریب قسطیں لکھیں۔ “دبئی چلو “جیسے ڈرامے سے ڈائریکٹر کے طور پر اپنا سکہ جمایا۔ اداکار عابد علی بھی عارف وقار کی دریافت تھے۔ پی ٹی وی کی طرف سے ہالینڈ میں رنگین نشریات کی تربیت لینے والے پہلے پروڈیوسر تھے۔ مزے کی بات ہے کہ پی ٹی وی کا آخری بلیک اینڈ وائٹ ڈرامہ بھی عارف وقار کی پروڈکشن تھی۔ 1978 میں بننے والا یہ وہی ڈرامہ تھا جس میں توقیر ناصر نے ہیرو کا کردار ادا کیا۔
بعد ازاں عارف وقار 3 سال کے لئے امریکہ میں وائس آف امریکہ کے ساتھ کام کرتے رہے۔ پھر بی بی سی لندن کے ساتھ وابستہ ہو گئے۔
عارف صاحب علمی ادبی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں ان کے والد وقار انبالوی معروف صحافی تھے جب کہ والدہ نزر فاطمہ بٹ پنجابی کی پہلی پیڑی کی کہانی کا ر تھیں۔ وہ خود انگلش کی استاد تھیں مگر پنجابی تحاریر ان کی شناخت بنیں۔
وقار انبالوی صاحب کی برسی کے موقع پر سینئر صحافی اسلم ملک نے لکھا،
“ہم صحافیوں کے ’’باباجی‘‘ وقار انبالوی شاید لاہور کے سب سے طویل کیرئیر والے صحافی تھے۔ پیدائش 22 جون 1896 کو ضلع انبالہ کے ایک گاؤں چنار تھل میں ہوئی۔ “صحافت لاہور میں کی۔ ہندو اخباروں پرتاپ، ملاپ، ویر بھارت اور مسلمان اخباروں زمیندار، احسان، سفینہ، آفاق اور نوائے وقت سے وابستہ رہے۔
ایسا بھی ہوا کہ دو دو اخباروں میں کام کیا۔ ہندو اخبار میں اداریہ یا کالم لکھ کر آئے تو مسلمان اخبار میں اس کا جواب بھی خود لکھا۔ نوائے وقت کا مقبول ترین کالم ’’سرِ راہے‘‘ سب سے زیادہ عرصہ انہوں نے ہی لکھا۔ اور بہت سوں نے بھی لکھا، لیکن وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔
نوائے وقت میں قطعہ نگاری اور فکاہیہ کالم نگاری 1956ء سے 1988ء میں اپنی وفات تک جاری رکھی۔
صحت آخر تک بہت اچھی رہی، روزانہ شرق پور سے بس پر بھاٹی آتے اور وہاں سے پیدل دفتر نوائے وقت پہنچتے اور واپسی بھی اسی طرح۔
کچھ عرصہ لاہور پریس کلب نقی بلڈنگ کے قریب ایک عمارت میں رہا تو کئی بار دوپہر کا کھانا ایک میز پر بیٹھہ کر کھانے کا موقع ملا۔ عمر میں 55 برس کا فرق ہونے کے باوجود کوئی جنریشن گیپ محسوس نہیں ہوا۔
باباجی نے کئی شادیاں کیں۔ ایک اہلیہ نذر فاطمہ کینئرڈ کالج سے تعلیم یافتہ اور ایم اے انگلش تھیں۔ وہ پنجابی کی پائینئر افسانہ نگار خواتین میں سے ایک تھیں۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’کاغذ دی زنجیر‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ ڈراموں کا مجموعہ ’’ست رنگ‘‘ بھی شائع ہوا۔ ان کی اولاد میں سے عارف وقار، عذرا وقار، اور عابدہ وقار نے نام پیدا کیا۔
محترمہ عابدہ وقار نے بتایا تھا والد صاحب کا صحیح سالِ پیدائش 1904 ہے مگر وہ عمر کے سلسلے میں مبالغے سے کام لیا کرتے تاکہ ان کی صحت کی دھاک بیٹھ جائے۔ ہوسکتا ہے بیٹی کو تسلی دی ہو کہ تمہارا باپ اتنا بوڑھا نہیں۔
پہلی جنگ عظیم میں خدمات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سال پیدائش 1896 ہی درست ہوگا۔
جناب وقار انبالوی کا اصل نام ناظم علی تھا۔ فوجی حلقوں میں حوالدار ناظم علی کے نام سے جانے جاتے تھے۔ پہلی عالمگیر جنگ میں دس ریکروٹ بھرتی کرانے پر بونس کے طور انہیں براہِ راست نائیک بھرتی کرلیا گیا۔ ناگ پور میں مقیم پنجاب رجمنٹ میں ان کی پہلی تعیناتی ہوئی۔ وہیں حوالدار ہوئے، بعد میں ان کے کمانڈر نے ان کا تبادلہ فرنٹیئر پولیس میں کرکے کوئٹہ بھیج دیا۔ بعد ازاں وہ نوکری چھوڑ کر لاہور میں روزنامہ زمیندار کے سٹاف میں شامل ہوگئے۔
دوسری جنگِ عظیم میں ایک بار پھر وقار انبالوی کو میدانِ جنگ میں اترنا پڑا۔ کئی اخبار نویسوں کو بطورِ آبزرور مختلف ممالک میں بھیجا گیا۔ وقارانبالوی کو مصر بھیجا گیا تھا جہاں وہ مصری ریڈیو سے تقریریں نشر کرتے رہے۔
وقار انبالوی کی تصانیف میں شاعری کے مجموعے آہنگ رزم، زبان حال اور افسانوی مجموعہ دیہاتی افسانے شامل ہیں۔
وقار انبالوی کا شعر
اسلام کے دامن میں بس اس کے سوا کیا ہے
اک ضرب یدالہی اک سجدہِ شبیری
لوگ اقبال کا سمجھتے ہیں
یہ شعر انہوں نے اپنے دوست شیعہ رہنما سید مظفر علی شمسی کی فرمائش پران کے ہفت روزہ اخبار “شہید” کی پیشانی کیلئے لکھا تھا۔ کسی نے باباجی سے پوچھا کہ لوگ اس شعر کو علامہ اقبال سے منسوب کرتے ہیں اور آپ نے کبھی وضاحت نہیں کی تو انہوں نے جواب دیا:
“در اصل یہ شعر بڑا تھا مگر شاعر چھوٹا تھا لہذا یہ اقبال سے منسوب ہوگیا۔”
وقار انبالوی نے 26 جون، 1988ء کو وفات پائی اور سہجووال، شرقپور میں سپردِ خاک ہوئے۔ ”
عارف صاحب کی بہن عذرا وقارمحقق اور پنجابی کہانی کار ہیں۔ ان کی کہانیوں کی ایک کتاب “اک آدرش وادی دی موت” شائع ہوچکی ہے۔ چند برس قبل ان کی خود نوشت بھی پنجابی میں شایع ہوئی، جس پر میں نے تبصرہ لکھا،” اُچھل ندیاں تارو ہویاں”
عذرا وقار کی خود نوشت پڑھ کر علم ہوا کہ وہ نزر فاطمہ بٹ کی بیٹی ہیں. نزر فاطمہ بٹ پنجابی کے ابتدائی کہانی کاروں میں سے ہیں۔ وہ پرانے زمانے کی ایم اے انگلش تھیں،
اور ساری عمرانگریزی پڑھاتی رہیں لیکن وہ عموماً پنجابی میں ہی لکھتی رہیں۔ عذرا وقار کا تعلق پنجابی کہانی کاروں کی دوسری پیڑھی سے ہے۔
ان کا نام عرصے سے میرے لیے مانوس تھا. ٹھیک سے یاد نہیں کب انھیں فیس بک پر دیکھا اور اپنا بڑا جان کے فرینڈ ریکوسٹ بھیج دی. لیکن کبھی بات نہیں ہوئی تھی۔ ایک دن میسج آیا کہ اپنا ایڈریس بھیجو، بھیج دیا تو 16 ستمبر کو ایک کتاب ملی۔ یہ کتاب ان کی خود نوشت تھی۔ مقصود ثاقب صاحب کے ادارے “سچیت” کی چھپی ہوئی۔ 380 روپے کی یہ کتھا 228 صفحات پر مشتمل ہے۔
مجھے پچھلے کچھ عرصے میں جن 2 کتابوں نے بہت آنند اور شانتی دی ہے ان میں سے میں ایک ڈاکٹر منظور اعجاز کی خود نوشت “رو میں ہے رخش عمر” اور دوسری عذرا صاحبہ کی “اچھل ندیاں تارو ہویاں” کتاب ہے۔ اتفاق سے دونوں کتابیں پنجابی میں لکھی گئی ہیں۔ گو منظور صاحب کی کتاب کا اردو ترجمہ پڑھنے کو ملا۔
عذرا وقار بنیادی طور پر کہانی کار ہیں، ان کا یہ وصف ان کی اس خود نوشت میں پوری طرح نظر آیا۔ انھوں نے جگہ جگہ کئی مظبوط کردار متعارف کروائے اور وہ اپنا اپنا کردار ادا کرکے جاتے رہے۔ مجھے عذرا وقار کی آپ بیتی پڑھ کر گیان ملا، چس اور سکون ملا ہے۔ پہلے سے زیادہ میری نظر میں عورت کی عزت بڑھی ہے۔ ان کے شوہر کی نسبت سے گجر قبیلے کی نفسیات اور زیادہ سمجھنے میں مدد ملی۔ عذرا صاحبہ نے ہمارے سماج کا چہرہ پینٹ کیا ہے۔ رومی، شاہ حسین، بلھے شاہ، وارث اور میاں محمد بخش کے طرزِ تخاطب اور کلام کے نئے مفاہیم آ شکار کیے ہیں۔ اسلام آباد کا ایک نیا، بدھا جیسا، روپ دکھایا ہے۔ وہ پنجاب اور پنجابی زبان کا نرویا انگ اور خالص پن سامنے لے آئیں ہیں. لاہور اور شرق پور کے ایک گاؤں میں گزارے ماہ وسال، تعلیم کے سلسلے بنگال میں گزارے 4 سال، شاہ حسین کالج لاہور میں نجم حسین سید ، شریف صابر اور حسین شاہد سے پنجابی کلاسک پڑھنی والی لڑکی، پھر قائد اعظم یونیورسٹی اور اس میں پڑھانے اور تحقیق کرنے والے لوگ، خواہ وہ ڈاکٹر کے کے عزیز ہوں یا ڈاکٹر جمال، عذرا وقار کی خود نوشت پڑھتے ہوئےآپ ایک نئے جہاں میں کھو جاتے ہیں۔”
میرے دوست اور استاد عارف وقارآج شام 6 بجے میری خصوصی دعوت پر “بلیک ہول “اسلام آباد تشریف لا رہے ہیں۔ یقیناً ان سے یاد گار مکالمہ رہے گا۔ آپ بھی تشریف لائیے گا۔