افریقہ کے ملک ایتھوپیا کا نام سنتے ہیں ہمارے ذہنوں میں غربت، افلاس اور غذائیت کی کمی کے شکار بچوں کی وہ تصویریں سامنے آتی ہیں جو میڈیا یا سوشل میڈیا کے ذریعے ہم تک پہنچتی ہیں لیکن حقیقت میں یہ ملک کتنا مختلف ہے یہ وہاں پہنچنے کے بعد ہی معلوم ہوتا ہے۔
گزشتہ ماہ مجھے چند روز ایتھوپیا کے دارالحکموت عدیس ابابا میں گزارنے کا موقع ملا۔ اس مختصر دورے کے دوران کچھ ایسی چیزیں معلوم ہوئیں جو میرے لیے سرپرائیزز تھیں، اگر یوں کہیں کہ اس ملک میں ایک عام پاکستانی کے لیے قدم قدم پر سرپرائز ہیں تو غلط نہ ہوگا۔
ایتھوپیا میں صفائی ستھرائی کا نظام، جرائم کو روکنے کی حکمت عملی، عام شہریوں کا نظم و ضبط، خواتین کا مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا، ایتھوپیا کے کیلنڈر اور دن کے 12 گھنٹوں کے حساب تک سب حیران کر دینے والا تجربہ رہا۔
ایتھوپیا افریقہ کے تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک میں شامل ہے اور اس کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے جو برطانوی کالونی نہیں رہے۔
ایتھوپیا کی کرنسی پاکستان سے 5 گنا زیادہ بہتر
پاکستانیوں کے لیے یہ حیرت کی بات ہوگی کہ ایتھوپیا کی کرنسی پاکستان سے 5 گنا زیادہ بہتر ہے، یعنی ایک ڈالر 55 ’ایتھوپیئن بر‘ کے برابر ہے۔ میرے لیے معیشت کے اعتبار سے سب سے حیران کن بات یہ تھی کہ مقامی کرنسی کا 200 سے بڑا نوٹ موجود ہی نہیں۔ زیادہ تر مالی لین دین آن لائن ہوتا ہے اور پیٹرول فلنگ اسٹیشنز پر نقدی وصول ہی نہیں کی جاتی۔
ایتھوپیا دنیا کے عیسائی مذہب کا دوسرا قدیم ترین ملک مانا جاتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس ملک کے باسی ترقی کے ساتھ ساتھ آج بھی قدیمی روایات سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس کی ایک مثال یوں لے لیجئے کہ اس ملک میں گریگورین کیلنڈر کے بجائے کاپٹک کیلنڈر کو فالو کیا جاتا ہے جو 25 قبل مسیح میں تیار کیا گیا تھا۔ کاپٹک کیلینڈر کے مطابق سال میں 12 ماہ کے بجائے 13 مہینے ہوتے ہیں اور 13واں مہینہ لیپ ایئر کے مطابق 5 یا 6 دنوں کا ہوتا ہے، اسی وجہ سے یہ عام کیلنڈر سے 7 سال پیچھے ہے۔
ایتھوپیا میں سرکاری اور عام لوگ بھی اسی کیلینڈر کو فالو کرتے ہیں۔ جہاں دنیا سنہ 2023 گزار رہی ہے وہیں ایتھوپیا میں سنہ 2016 کا اختتام ہو رہا ہے۔ صرف کیلینڈر ہی نہیں بلکہ ایتھوپیا میں رات اور دن کے اوقات بھی مختلف ہیں۔
ایتھوپیا کے لوگوں کا گھڑیوں کا حساب دنیا سے مختلف
ایتھوپیا میں سب سے حیرت میں مبتلا کرنے والی بات میرے لیے یہ تھی کہ وہاں لوگ گھڑیوں کا حساب دنیا سے مختلف رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر صبح 7 بجے آپ کسی سے وقت پوچھیں گے تو آپ کو بتایا جائے گا کہ ایک بج رہے ہیں۔
’یہ میرے لیے انتہائی حیران کن بات تھی، میں جب شام 7 بجے (مقامی وقت) اپنے ہوٹل پہنچا تو ریسپشن پر لگی گھڑی ایک بجا رہی تھی، میں نے سوچا شاید گھڑی کی سوئیاں رک گئی ہیں، ریسپشنسٹ کو بتایا تو میرے علم میں لایا گیا کہ دنیا کے لیے اس وقت شام کے 7 بجے ہیں لیکن ہمارے ہاں سوئی کے 12 گھنٹوں کی ترتیب مختلف ہے‘۔
مجھے بتایا گیا کہ یہاں دن کا آغاز صبح 6 بجے سے ہوتا ہے تو ہم اسے 6 نہیں پہلا گھنٹہ سمجھتے ہیں اور جب شام کے 6 بجتے ہیں تو ہم اسے 12 بجے کہتے ہیں کیونکہ دن یہاں ختم ہوجاتا ہے اور رات شروع ہوجاتی ہے۔ ابھی شام کے 7 بج چکے ہیں تو یہ ہمارے لیے رات کا پہلا گھنٹا ہے اس لیے ہماری گھڑی میں ایک بج رہا ہے۔
ایتھوپیا کے دارالحکومت عدیس ابابا میں موٹرسائیکل سواروں کے داخلے پر پابندی
ایتھوپیا کے دارالحکومت عدیس ابابا میں موٹر سائیکل سواروں کے داخلے پر مکمل طور پر پابندی عائد ہے اور ایسا گزشتہ 2 سالوں سے کیا گیا ہے۔ میرے گائیڈ اور ڈرائیور نے مجھے بتایا کہ شہر میں راہ زنی اور دیگر جرائم میں اضافہ ہوا تو اس کی وجہ جانی گئی، پھر معلوم ہوا کہ جرائم پیشہ افراد موٹرسائیکلوں پر آتے ہیں اور شہریوں سے قیمتی اشیا چھین کر موٹرسائیکلوں پر فرار ہو جاتے ہیں۔
’یہاں کی حکومت نے اس مسئلے کا حل نکالنے کے لیے عدیس ابابا میں موٹر سائیکلوں پر مکمل طور پر پابندی عائد کردی ہے۔ ماسوائے کوریئر سروسز کے کسی کو بھی شہر میں موٹر سائیکل چلانے کی اجازت نہیں ہے۔ فوڈ یا دیگر اشیا پہنچانے کے لیے سائیکل کا استعمال کیا جاتا ہے۔
ڈرائیور کے مطابق گزشتہ 2 سالوں سے عائد اس پابندی کے بعد شہر میں جرائم کی شرح میں بھی کمی آئی ہے۔
یہ سننے کے بعد آپ کے ذہنوں میں اٹھنے والا سوال میرے ذہن میں بھی آیا کہ اگر موٹر سائیکل پر پابندی عائد ہے تو عام لوگ شہر کے بیچ آمدورفت کیسے کرتے ہوں گے؟ ہمارے ہاں اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور، کراچی سمیت ہر شہر میں دفتر حتیٰ کے اسکول جانے والے طلبا بھی موٹرسائیکل کا استعمال کرتے ہیں۔
اس سوال کا جواب مجھے اس وقت ملا جب میں شہر سے باہر انتہائی قلیل آبادی والے علاقے ماؤنٹ اینٹیٹو پہنچا۔ ماؤنٹ اینٹیٹو سیاحوں کے لیے جنگلوں کے بیچ ایک ایسا مقام ہے جہاں سے شہر بھر کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ یہاں پہنچ کر ایسا گمان ہوا جیسے ہم اسلام آباد کے دامن کوہ یا مونال ریسٹورنٹ پہنچ گئے ہوں۔ شہر سے تقریباً 20 کلو میٹر باہر اس جنگل میں واکنگ ٹریکس بنا کر تفریحی مقام کے طور پر سنہ 2020 سے متعارف کیا جارہا ہے۔
یہاں آبادی نہ ہونے کے برابر ہے لیکن لوکل بسیں اس علاقے تک جاتی ہیں۔ شہر میں لوکل ٹرانسپورٹ کا ایک بڑا نیٹ ورک پھیلایا گیا ہے جس کی وجہ سے دفاتر، اسکول، کالجز اور یونیورسٹیز جانے والے لوگ باآسانی سفر کرسکتے ہیں۔
بس اسٹاپوں پر کھڑے لوگ اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں
اس سب میں ایک متاثر کن پہلو میرے لیے وہاں کے لوگوں خصوصاً نوجوان لڑکوں لڑکیوں کا نظم و ضبط تھا۔ بس اسٹاپوں پر انتظار کرتے لوگ ایک قطار میں دکھائی دیتے اور اپنی باری کا انتظار کرتے، بس میں گنجائش نہ ہونے پر اگلی بس کا انتظار کرتے۔ شاید یہ منظر یورپ، امریکا، جاپان یا کسی ترقی یافتہ ملک میں میرے لیے حیران کن نہ ہوتا لیکن افریقہ کے ملک ایتھوپیا کے لوگوں کا نظم و ضبط دیکھ کر پاکستان کی میٹرو بسوں کا منظر میری آنکھوں کے سامنے سے ضرور گزرا۔
ایتھوپیا کی خواتین کے لیے مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کے مواقع
اس نظم و ضبط کے علاوہ دوسرا بڑا متاثر کن پہلو میرے لیے وہاں کی خواتین کے لیے مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کے مواقع تھے۔ کسی بھی ترقی پذیر ملک میں خواتین کے شعبوں کو محدود کردیا جاتا ہے لیکن ایتھوپیا کے شہر عدیس ابابا میں مردوں کی نسبتاً خواتین زیادہ کام کرتی نظر آئیں، چاہے وہ کافی شاپس ہوں، دفاتر ہوں، چھوٹی موٹی دکان ہو یا سڑک کنارے بیٹھے ناشتہ لگائے کوئی اسٹال ہو، فروٹ اور سبزی کی دکانوں سمیت ہر جگہ مردوں کی نسبت خواتین کی تعداد زیادہ نظر آئی۔
عدیس ابابا کے لوگوں کا نظم و ضبط اور خواتین کا معاشرے میں فعال کردار یہ بتاتا ہے کہ اس ملک کی سمت درست ہے اور ترقی کرنے کے لیے جو اجزا کسی بھی ملک کے لیے ضروری ہیں وہ ایتھوپیا میں پائے جاتے ہیں۔