ڈاکٹر نعیم اعوان پچھلے 10 سال سے جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز محکمہ تحفظ جنگلی حیات میں سپروائزر کے طور پر کیا تھا۔ وہ وہاں چڑیا گھر میں پرندوں اور جانوروں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ ان کی افزائش کے لیے بھی کام کرتے رہے۔
نعیم اعوان نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے بہت ساری نوکریاں اس لیے بھی چھوڑیں کیوں کہ اس میں بہت ساری پابندیاں ہوتی ہیں اور میں کچھ بڑا کام کرنا چاہتا تھا۔ بڑے کاموں کے لیے میں نے اپنی نوکری کی قربانی دی۔‘
ڈاکٹر نعیم نے پی ایچ ڈی ایک نایاب پرندے ویسٹرن ٹریگوپان پر کی ہے جو آئی یو سی این کی ریڈ لسٹ پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ انہوں نے دانگیر کے مسکن کو ظاہر کرنے کے لیے جی آئی ایس کے طریقہ کار کو استعمال میں لایا ہے اور یہ بتایا ہے کہ پاکستان بھر میں اس کی افزائش کے لیے کتنا مسکن موجود ہے۔ انہوں نے مطالعہ کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور انسانوں کے عمل دخل سے جگلی حیات کو کیا خطرات ہیں۔
ڈاکٹر نعیم اعوان نے مختلف جانورں اور پرندوں کو گننے کے لیے استعمال ہونے والے مختلف طریقوں کے بارے میں بتایا کہ پرندوں کی آوازیں سن کر ان کو گنا جاتا ہے جبکہ جانوروں جیسے برفانی چیتا یا کالے ریچھ کو ان کے قدموں کے نشان، پاخانے یا کھرچنے کے نشانات سے گنا جاتا ہے. ان کا کہنا ہے کہ جدید طریقہ یہ ہے کہ کیمرہ استعمال کرکے ان کو گنا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں
ڈاکٹر نعیم اعوان نے کہا کہ مختلف اوقات میں مختلف جگہوں پر کیمرے لگا کر یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہاں کون سے جانور اور پرندے موجود ہیں اور وہ کیا حرکات، کرتے ہیں اور کس ماحول میں رہتے ہیں۔ یہ مواد جمع کرنے کے بعد تجزیہ کیا جاتا ہے جس کے بعد جانور یا پرندے کی معلومات کو انٹرنیشنل جرنلز اور سائنسی جرنلز میں شائع کرتے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے ایک بین الاقوامی تنظیم اور محکمہ جنگلی حیات کے ساتھ مل کر مچھیارہ نیشنل پارک میں پرندوں کی افزائش کے لیے محفوظ زون قائم کیے ہیں، جہاں وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ پرندوں کی افزائش کے دوران کوئی بھی انسانی سرگرمی نہ ہو تاکہ ان کی افزائش کے دوران کوئی خلل نہ ہو۔
نعیم اعوان نے کہا کہ 2017 میں جب یہ منصوبہ شروع کیا تو اسی دوران سروے کیا گیا تھا جس کے مطابق مچھیارہ نیشنل پارک میں نایاب پرندے ریاڑ کی تعداد 170 تھی۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے مقامی لوگوں اور سکول کے بچوں کو منظم کیا اور ان کو جنگلی حیات کے تخفظ کے لیے تعلیم دی۔ جس کے اچھے نتائج برآمد ہوئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی طرف سے گزشتہ سال کیے جانے والے سروے کے مطابق ریاڑ کی تعداد 170 سے بڑھ کر 375 تک پہنچ گئی ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں یہ ان کی بڑی کامیابی ہے۔
ڈاکٹر نعیم 10 سال سے کشمیر سکول میں رضاکارانہ طور پر محکمہ جنگلات کے فاریسٹر اور فاریسٹ گارڈز کو تربیت دے رہے ہیں کہ جنگلات کو بچانا کتنا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ فرنٹ لائن کے سپاہی ہیں اور ان کا کردار بہت اہم ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اگر یہ چاہیں تو جنگلات کو اچھی طرح بچا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر اعوان نے 2500 سے 3000 فاریسٹرز کو تربیت دی ہے اور اب وہ نہ صرف آزاد کشمیر بلکہ گلگت بلتستان میں بھی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔