پی آئی اے حویلیاں حادثہ: مسافروں کے لواحقین 7 سال بعد بھی تحقیقات سے کیوں مطمئن نہیں؟

جمعرات 7 دسمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

’پائلٹ بار بار ’مے ڈے‘ کی کال دے رہا تھا اور اس وقت لگا کہ میرا بھائی مدد کے لیے پکار رہا ہے اور طیارے کو کسی قریبی ایئر پورٹ میں لینڈنگ کا کہا جائے گا لیکن افسوس پائلٹ کی ایمرجنسی کال کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔‘

عدنان زین العابدین کے بھائی سلمان زین العابدین پی آئی اے کے اس بدقسمت طیارے پی کے۔ 661 میں سفر کر رہے تھے، جو چترال سے اسلام آباد دورانِ پرواز حویلیاں میں گر کر تباہ ہو گیا تھا، طیارے میں سوار عملے سمیت تمام 48 مسافر اپنی زندگی کھو بیٹھے۔

بدقسمت طیارے کے بلیک باکس کی ریکارڈنگ سننے کے بعد عدنان زین العابدین کہتے ہیں کہ وہ دن ان کے لیے قیامت سے کم نہیں تھا، یہ کہتے ہوئے ان کی آواز فرطِ جذبات سے بھرا گئی۔ ’ہماری زندگی 7 دسمبر 2016 سے وہیں رکی ہوئی ہے، ایسا لگتا ہے سب کچھ ختم ہوگیا۔‘

اس وقت کابل میں موجود عدنان نے وی نیوز کو فون پر گفتگو میں بتایا کہ حکومت ابھی تک طیارے میں ہلاک ہونیوالے مسافروں کے لواحقین کو حادثے کے حوالے سے مطمئن نہیں کر سکی ہے،  ’ہم 7 سال بعد بھی انصاف کے منتظر ہیں اور عدالت کے چکر لگارہے ہیں۔‘

سلمان زین العابدین

آخری بار کاک پٹ میں کیا گفتگو ہوئی؟

حادثے کے بعد لواحقین سچ جاننے کے منتظر تھے لیکن وقت گزرنے کے باوجود بھی حادثے کی وجوہات کے حوالے سے لواحقین کو آگاہ نہیں کیا گیا بلکہ اس ضمن میں متضاد بیانات سامنے آئے، جس نے مسافروں کے لواحقین کو اذیت سے دوچار کیا۔

عدنان زین العابدین کے مطابق، انہوں نے اس کیخلاف پشاور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی انہیں حادثے کی تحقیقات کے حوالے سے آگاہ کیا جائے، آخر کار عدالتی حکم پر حکومت نے تحقیقاتی رپورٹ جمع کرائی جس کے مطابق حادثہ فنی خرابی کے باعث پیش آیا تھا۔

عدنان نے بتایا کہ انہیں کاک پٹ کی ریکارڈنگ بھی سنائی گئی اور حادثے کے حوالے بریفننگ بھی دی گئی۔ ’ہمیں چند سیکنڈز کی آڈیو سنائی گئی جس میں پائلٹ بار بار ایس او ایس کال دے رہے تھے، لیکن کنڑول روم سے جواباً کوئی ہدایت نہیں دی گئی، پائلٹ کو ایمرجنسی لینڈنگ کی ہدایت کیوں نہیں دی گئی۔‘

اپر چترال کے رہائشی احترام الحق بھی اس بدقسمت طیارے کے مسافروں میں شامل تھے، جو جانبر نہ ہوسکے۔ ان کے بڑے بھائی احتشام الحق نے وی نیوز کو بتایا کہ ان کی ماں کے آنسو رکنے کا نام نہیں لیتے۔

انہوں نے بتایا کہ حادثے کے حوالے انہیں کوئی سرکاری سطح پر کوئی بریفنگ نہیں دی گئی البتہ انہیں پی آئی اے آفس میں انفرادی طور پر کاک پٹ کی آخری گفتگو سنائی گئی۔ ’ایک مرحلے پر پائلٹ پانچ منٹ کے اندر لینڈنگ کی اجازت مانگ رہے تھے، جس کے بعد ایمرجنسی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے، ایسا کیا ہوا کہ اچانک طیارے میں فنی خرابی پیدا ہو گئی۔‘

احترام الحق

طیارے کی سیفٹی کے ضمن میں عدنان زین العابدین بھی شکوہ بہ لب ہیں، ان کے مطابق بدقسمت طیارے کی پہلی پرواز اسلام آباد سے چترال اور پھر پشاور کے دوران بھی اس میں فنی خرابی کی شکایت کی اطلاعات تھی لیکن پھر بھی اسے واپس اسلام آباد اڑان کی اجازت دی گئی۔ ’جب تک لاپرواہی میں ملوث اسٹاف کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی ہمیں انصاف نہیں ملے گا۔‘

7 سال گزر گئے لیکن غم تازہ ہے

پی کے۔661  کے جان لیوا حادثے کو 7 برس بیت گئے لیکن لواحقین کا غم آج بھی تازہ ہے، عدنان زین العابدین بتاتے ہیں کہ وہ دن بھولنا ان کے لیے ناممکن ہے جس دن ہم نے اپنے پیاروں کو کھو دیا، جو سب اعلی تعلیم یافتہ اور پروفیشنل لوگ تھے۔

’حکومت نے بھی لواحقین کے ساتھ ہمدردی نہیں کی، حادثے کے بعد کیا اقدامات اٹھائے گئے؟ لاپرواہی پر کس کو سزا ہوئی؟ کس کو ذمہ دار قرار دیا گیا؟ کچھ بھی نہیں ہوا، ڈی این اے کے ذریعے لاش کی شناخت کے دوران انہیں 20 دن تک سخت مشکل سے گزرنا پڑا لیکن حکومتی سطح پر ان کے ساتھ تغزیت کے لیے کوئی نہیں آیا۔‘

لواحقین عدالت جانے پر مجبور کیوں؟

عدنان بتاتے ہیں طیارہ حادثے کے بعد وہ حکومتی تحقیقات کے منتظر تھے اور پر امید تھے کہ تحقیقات کے بعد انہیں حقائق سے آگاہ کیا جائے گا لیکن کافی انتظار کے باوجود بھی مکمل خاموشی رہی جس کے بعد انھوں نے پشاور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی۔ ’انصاف لواحقین کا حق ہے اور وہ انصاف چاہتے ہیں، اس لیے عدالت گئے۔‘

پشاور ہائی کورٹ کے حکم پر 2020 میں حکومت نے عدالت میں تحقیقاتی رپورٹ جمع کرادی، جس کے مطابق حادثہ فنی خرابی کے باعث پیش آیا تھا۔ ’تحقیقاتی رپورٹ ہمارے زخمیوں پر نمک پاشی کے مترادف ہے، کیونکہ اس کے مطابق خراب طیارے کو پرواز کی اجازت دی گئی تھی۔‘

عدنان نے سوال اٹھایا کہ فنی خرابی کے باوجود بھی طیارے کو اڑان کی اجازت دی گئی، کلیئرنس جاری کرنے والوں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟کسے سزا ہوئی؟ طیارہ گر گیا مسافر جاں بحق ہو گئے۔۔۔ ہم سے پوچھیے، میری ماں نے جواں بیٹے کو کھویا، بچوں نے شفیق باپ کو۔ بس صرف افسوس کرنے سے کیا ہو گا۔ ہم چاہتے ہیں آئندہ ایسی لاپرواہی نہ ہو۔‘

صرف تحقیقات ہمیں بلکہ لواحقین کو انشورنس کی مد میں معاوضے پر بھی اعتراض ہے، اس ضمن میں سیشن کورٹ میں کیس جاری ہے۔ لواحقین کا موقف ہے کہ ان کو ادائیگی بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہونا چاہیے ان کی درخواست سول کورٹ سے منظور ہو گئی ہے۔

پی آئی اے کی پرواز 661 کو حادثہ کہاں پیش آیا ؟

پی آئی اے کی پرواز پی کے۔661 اسلام آباد چترال۔ چترال پشاور اور چترال اسلام آباد دو پرواز ہوتی تھیں، 7 دسمبر آج ہی کے دن پرواز حسب معمول اسلام آباد سے چترال گئی اور وہاں سے پشاور کی جانب، پشاور سے چترال کے بعد واپس آخری منزل اسلام آباد ایئرپورٹ تھی لیکن بدقسمت طیارہ منزل تک نہ پہنچ سکا اور 7 دسمبر کی سہ پہر ہزارہ کے علاقے حویلیاں کے پہاڑیوں میں گر کر تباہ ہو گیا اور اس میں سوار تمام افراد جاں بحق ہو گئے۔

اس حادثے پر پورا ملک سوگوار ہو گیا تھا اور امدادی سرگرمیاں شروع کر دی گئی  اور حادثے میں جاں بحق مسافروں کی باقیات کو اسلام آباد منتقل کیا گیا تاکہ ڈی این اے کے ذریعے شناخت ان کی شناخت کے بعد لواحقین کے حوالے کیا جا سکے، تاہم اس عمل میں ایک ماہ کا وقت لگ گیا۔

طیارے میں کون کون سوار تھا؟

چترال خیبر پختونخوا کا دورافتادہ سیاحتی ضلع ہے جہاں ملکی و غیر ملکی سیاح بڑی تعداد میں جانا پسند کرتے ہیں، پی آئی اے کی پرواز پی کے۔ 661 میں سوار زیادہ تر مسافروں کی تعداد چترال سے تعلق رکھنے والوں پر مشتمل تھی جو اسلام آباد جارہے تھے۔

جنید جمشید اور اہلیہ 

میوزک کی دینا چھوڑ کر تبلیغ کا راستہ اپنانے والے جنید جمشید بھی اپنی اہلیہ کے ہمراہ اس بدقسمت طیارے میں سوار تھے۔ جنید جمشید کی چترال میں سیر کی ویڈیوز بھی منظر عام ہر آئی تھیں۔ روانگی سے قبل جنید جمشید ایئرپورٹ پر لوگوں سے ملے اور پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا کر اسلام آباد عازم سفر ہوئے تھے۔

جنید جمشید

ڈپٹی کمشنر اسامہ احمد وڑائچ اور اہل خانہ

سی ایس ایس افسر اسامہ احمد وڑائچ چترال کے ڈپٹی کمشنر تھے، جو باقاعدگی سے پی آئی اے کی پرواز سے سفر کرتے رہے تھے لیکن 7 دسمبر کا سفر آخری ثابت ہوا، اسامہ اپنی بیوی اور چھوٹی بچی کے ہمراہ اس حادثے میں جاں بحق ہو گئے۔ ان کی خدمات کے پیش نظر چترال کے ایک پارک کو ان کے نام سے منسوب کرتے ہوئے ایک اکیڈمی بھی ان کے نام پر قائم کی گئی ہے۔

سلمان زین العابدین

سلمان زین العابدین کا تعلق اپر چترال کے علاقے مودیر کے ایک سیاسی اور تعلیم یافتہ خاندان سے تھا۔ جو مخلتف ملکی و غیر ملکی اداروں کے ساتھ کام کر چکے تھے، سلمان افغانستان میں بھی رہے تھے۔ اور حادثے سے پہلے  چترال میں ایک نجی ادارے کے سربراہ تھے۔ جو دفتری امور کے سلسلے میں اسلام آباد جا رہے تھے جو ان کی زندگی کا آخری سفر ثابت ہوا۔ سلمان کی ایک بیٹی اور 2 بیٹے ہیں۔

لواحقین کا موقف ہے کہ چترال کے اسامہ شہید پارک میں سالانہ دعائیہ تقریب کا انعقاد کرکے انہیں تسلی دی جاتی ہے لیکن تحقیقات کے حوالے سے ان کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جا رہے، ان کا کہنا ہے کہ آج وہ غم سے نڈھال ہیں، نہیں چاہتے کہ یہ وقت کسی اور پر آئے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp