برطانوی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ خون کا ایسا تجزیہ بھی کرسکتے ہیں جس سے یہ معلوم کیا جا سکے کہ کسی شخص کے اندرونی اعضا کتنی تیزی سے بوڑھے ہو رہے ہیں بلکہ یہ پیشگوئی بھی کر سکتے ہیں کہ کون سا عضو جلد ناکارہ ہوجائے گا۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی ٹیم کا کہنا ہے کہ وہ دل، دماغ اور پھیپھڑوں سمیت جسم کے 11 بڑے حصوں کو مانیٹر کر سکتے ہیں۔
ٹیم کا کہنا ہے کہ اس نے اسے ہزاروں بالغوں پر آزمایا اور زیادہ تر درمیانی یا اس سے زیادہ عمر کے تھے۔ نتائج بتاتے ہیں کہ 50 سال سے زیادہ عمر کے 5 میں سے ایک معقول حد تک صحت مند شخص میں کم از کم ایک عضو ایسا ہوسکتا ہے جو تیزی سے تیز بوڑھا ہو رہا ہو۔
ہر 100 میں سے ایک سے 2 لوگوں کے کئی اعضا ہوسکتے ہیں جو ان کی عمر سے زیادہ پرانے ہوچکے ہوں۔
محققین کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس طرح کے چیک اپ کا خیال ڈراؤنا ہوسکتا ہے لیکن یہ اعضا کو قدرے بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔
ٹیم کا کہنا ہے کہ یہ جاننا کہ کون سے اعضا تیزی سے زوال کا شکار ہیں اس بات کو ظاہر کرنے میں مدد دے سکتا ہے کہ متعلقہ شخص کو صحت کے کیا مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
ایکسپائر ہوتے اعضا کیا خطرات درپیش ہوسکتے ہیں؟
مثال کے طور پربوڑھا ہوتا دل ہارٹ فیل ہونے کا خطرہ بڑھادیتا جب کہ تیزی سے عمر رسیدہ دماغ ڈیمنشیا کا زیادہ شکار ہو سکتا ہے۔
مطالعہ میں ایک یا زیادہ اعضا کی تیزی سے عمر بڑھنے سے اگلے 15 سالوں میں بعض بیماریوں اور موت کا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔
مزید پڑھیں
ٹیم نے جسم کے جن حصوں کی جانچ کی ان میں دماغ، دل، جگر، پھیپھڑے، آنت، گردہ، چکنائی، خون کی شریانیں، مدافعتی ٹشو، پٹھے، لبلبہ شامل تھے۔ خون کا ٹیسٹ پروٹین کی سطح کو تلاش کرتا ہے تاکہ یہ اشارہ دیا جا سکے کہ کن اعضا کی عمر کس شرح سے بڑھ رہی ہے۔
محققین نے بہت سارے خون کے ٹیسٹ کے نتائج اور مریض کے ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے پیشینگوئیاں کرنے کے لیے مشین لرننگ الگورتھم کو ترتیب دیا۔
ایک محقق ڈاکٹر ٹونی وِس کورے نے بتایا کہ جب ہم نے ہر فرد کے لیے ان اعضا کی حیاتیاتی عمر کا موازنہ شدید بیماریوں کے بغیر لوگوں کے ایک بڑے گروپ کے ساتھ کیا تو ہم نے پایا کہ 50 سال کی عمر کے 18.4 فیصد افراد یا اس سے زیادہ عمر کے افراد میں کم از کم ایک عضو کی عمر اوسط سے زیادہ تیزی سے ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے یہ بھی پایا کہ ان افراد کو اگلے 15 سالوں میں اس مخصوص عضو میں بیماری کا زیادہ خطرہ ہے۔ یونیورسٹی نے ٹیسٹ کو پیٹنٹ کرانے کے لیے کارروائی کا آغاز کردیا ہے۔