نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ گلگت بلتستان جعرافیائی طور پر انتہائی اہمیت کا حامل ہے، گلگت بلتستان کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے بھرپور اقدامات کیے جارہے ہیں۔ گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
مزید پڑھیں
نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے آغا خان یونیورسٹی کراچی میں طلباء و طالبات سے خصوصی نشست کے دوران طلبہ کے سوالات کے بھرپور جواب دیتے ہوئے کہا کہ تعلیمی ادارے ہمیشہ میرے دل کے قریب رہے ہیں، طلبہ سے گفتگو کرکے خوشی ہو رہی ہے اور نئی چیزوں کے بارے میں جاننے اور سمجھنے میں بہت خوشی محسوس ہوتی ہے۔
نشست کے دوران ایک طالب علم نے سوال کرنے سے پہلے ایاک نعبد وایاک نستعین پڑھا اور وزیر اعظم سے سخت سوال پوچھا جس پر انوار الحق کاکڑ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ جب آپ نے ایاک نعبد و ایاک نستعین سے بات شروع کی تو میں سمجھ گیا کہ مجھے پوری تیاری کے ساتھ جواب دینا ہے۔
https://twitter.com/OfficialShehr/status/1733022573133226288
نگراں وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کے ہر شہری کو آزادی اظہار رائے کا حق حاصل ہے، آزادی اظہار رائے کو مثبت اور تعمیری ہونا چاہیے۔ بطور پاکستانی مذہب، زبان اور نسل پرستی کے خلاف ہیں۔ کوئٹہ میں بڑی تعداد میں مسیحی اور ہندو برادری مقیم ہے لیکن پاکستان میں تمام اقلیتی برابر کے شہری ہیں۔
’اقیلیتوں کے لیے روزگار کے مواقع بڑھانے کے لیے معاشرے کو کردار ادا کرنا ہوگا۔‘
انہوں نے کہا کہ دنیا کے نمایاں تعلیمی اداروں نے ہمیشہ مجھے اپنی جانب راغب کیا ہے، دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں طلبہ کے ساتھ نشستیں کی ہیں، جن میں پاکستان کی یونیورسٹیاں بھی شامل ہیں۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دونوں لمز یونیورسٹی والا واقعہ آپ سب لوگوں کو تو یاد ہی ہوگا جو کہ بڑا مشہور ہوا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ زندگی کو بامقصد بنانے کے لیے تعلیم ضروری ہے، 1947 آزادی ایکٹ کے تحت ریاستوں کو پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کا حق دیا گیا۔ آئین کے تحت صوبوں کو بے پناہ اختیارات حاصل ہیں۔ این ایف سی ایوارڈ اور 18ویں ترمیم سے صوبوں کو بااختیار بنایا گیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ نرسنگ کا شعبہ انتہائی اہم اور مقدس ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے فنڈز کی فراہمی بھی ناگزیر ہے۔ انہوں نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ملک کا اثاثہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مختلف وجوہات کی بنا پر لوگ ایک سے دوسرے ملک سفر کر رہے ہیں، پروفیشنلز کے دوسرے ملک جانے کو منفی انداز میں نہیں دیکھنا چاہیے۔