5 دسمبر بروز منگل کی صبح سوا 11 بجے کے لگ بھگ استاد حسین بخش گُلو صاحب کے صاحب زادے، چاند خان کا فون آیا۔ وہ گلو گیر لہجے میں بتا رہے تھے، “ابو صبح 9 بجے کے قریب رب کو پیارے ہوگئے ہیں”۔
چاند سے خان صاحب کی صحت کے حوالے سے رابطہ رہتا تھا۔ کوئی مہینہ بھر پہلے چاند اور سورج خان دونوں سے اسلام آباد میں ملا قات ہوئی تھی۔ ظہور صاحب جب سیکرٹری وزاتِ اطلاعات و نشریات اور پی ٹی وی کے ایم ڈی تھے تو انھوں نے کئی نئے پروگرام شروع کئے۔ جن میں ایک ‘سُر گیان’ بھی ہے جس کے میزبان ہمارے دوست ثاقب سُلطان ہیں۔ ثاقب ایک بڑے باپ کے بیٹے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ اسکول کے زمانے میں میرے مرحوم ماموں شفیق، عنائت اللہ کی زیرِادارت پٹیالہ گراؤنڈ لاہور سے چھپنے والے ماہنامہ ‘حکایت’ کے باقاعدہ قاری تھے۔ حکایت میں سلطان محمود آشفتہ روحانیت پر لکھا کرتے تھے۔
آشفتہ صاحب ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ وہ اردو اور پنجابی کے شاعر تھے۔ اس کے علاوہ پی ٹی وی اور ریڈیو کے لئے ڈرامے اور فیچر لکھتے رہے۔ کئی فلمی کہانیاں، گیت اور مکالمے بھی لکھے۔ ان کی روحانیت پر ایک کتاب بھی چھپ چُکی ہے۔ جب کہ ‘آشفتہ دیاں نظماں’ ان کی پنجابی نظموں کی کتاب ہے۔
آشفتہ صاحب کا نام اور کام دونوں منفرد ہیں۔ ان کے فرزند ثاقب سلطان خود بھی بہت اچھا گاتے ہیں۔
استاد حسین بخش گلو صاحب گزشتہ کئی ماہ سے علیل تھے۔ شام چوراسی گھرانے کے فرزند استاد شفقت سلامت گُلو صاحب کے بھانجھے اور داماد بھی ہیں ۔ وہ بھی گُلو صاحب کے علاج معالجے کے لئے کوشاں رہے۔ وہ نگران وزیرِ ثقافت جمال شاہ سے بھی خان صاحب کے حوالے سے ملے۔ میں نے بھی کئی مرتبہ ٹویٹ کیا کہ سرکار کو چاہیے کہ خان صاحب کے علاج کے لئے آگے آئے۔ برادرم عمر چیمہ مہربانی کرتے ہیں اور میرے ٹویٹ کو ریٹویٹ کردیتے ہیں۔
وفاقی گورنمنٹ نے خدا خدا کر کہ 2 لاکھ جب کہ پنجاب کی صوبائی حکومت نے ایک لاکھ کا چیک استاد حسین بحش گُلو کے نام جاری کیا۔
ظہور صاحب سے کچھ کرنے کا کہا تو انھوں نے بتایا کہ وزارتِ ثقافت ہی کچھ کرے گی۔ ظہور صاحب خود بھی علم و فن کے قدر دان ہیں او گُلو صاحب کے فنی مرتبے سے بخوبی آگاہ ہیں۔ خان صاحب کو تمغہ برائے حُسنِِ کارکردگی دلوانے میں بھی ان کا واضح کردار تھا۔ بہرحال انھوں نے خان صاحب کا انٹرویو اور ان کے صاحب زادوں سورج، اور چاند خان کا پروگرام کرنے کا کہہ دیا۔ ثاقب سلطان لاہور گئے ہوئے تھے۔ انھوں نے استاد حسین بخش گُلو صاحب کا انٹرویو بھی کر لیا۔ ان دنو ں خان صاحب کی طبیعت قدرے سنبھل چُکی تھی۔ چند دن بعد سورج اور چاند پی ٹی وی کے پروگرام کے لئے اسلام آباد آئے تو ریہرسل ثاقب سلطان صاحب نے اپنے گھر رکھ لی۔ میں بھی وہاں گیا تو بہت دیر ریہرسل کے ساتھ خان صاحب کی باتیں کرتے رہے۔
خان صاحب کا بڑا بیٹا شبیر علی خان بھی اچھا گاتا ہے۔ وہ جرمنی میں مستقل آباد ہے۔ کئی برس قبل میں اور برادرم احمد رضا چیمہ نے شبیر کو استاد شفقت سلامت علی خان صاحب کی برسی کے موقع پر الحمراء ہال لاہور میں سُنا تھا۔
حسین بخش صاحب ہمیشہ سورج اور چاند کا ذکر بہت محبت سے کیا کرتے تھے۔ کہا کرتے تھے کہ وہ ایسے گاتے ہیں جیسے لچھے ہوں۔
خان صاحب کے چاہنے والے دنیا بھر میں پائے جاتے ہیں۔ مشرقی پنجاب سے ڈاکٹر سندھو اور ان کے استاد پروفیسرارندر سنگھ گُلو صاحب کی گائیکی کے دیوانے ہیں۔ اور بے شمار لوگ ہوں گے جو ان کے دیوانے ہیں۔ مگر میں تو جن کو جانتا ہوں ان کی بات کر رہا ہوں۔ بڑے لوگوں کے بھی عجیب کام ہوتے ہیں۔ وہ دنیا سے چلے جائیں تو ظاہر ہے سب لوگوں کی رسائی تو ان کے گھر والوں تک نہیں ہوتی۔ پھر بڑے لوگوں کے جانے کا دکھ بھی ان کے فن کے شناسا اور چاہنے والے آپس میں ہی بانٹ لیتے ہیں۔ پروفیسر ارندر نے بھی مشرقی پنجاب سے خان صاحب کی وفات پر تعزیت مجھ سے ہی کی۔
ڈاکٹر سندھو نے اپنے تعزیتی پیغام میں لکھا، “حسین بخش گُلوصاحب ہم سے جسمانی طور پر جدا ہو گئے ہیں۔ بہت ملال ہے۔ ان کا جانا برداشت نہیں ہوا۔ بڑا عجیب سا لگتا ہے یہ کہنا کہ گلو خان صاحب اب نہیں رہے۔ بڑا اداس رہا۔ بہت سنا ان کو اور خوب رویا بھی۔ قسم سے ان کا جانا بالکل اچھا نہیں لگا۔ خیر اللہ کے کام کے آگے ہم کچھ نہیں کر سکتے”۔
بی بی سی سمیت پاکستان کے تمام اخبارات اور ویب سائٹس نے خان صاحب کی وفات پر خصوصی ضمیمے شائع کئے جب کہ تمام چینلز نے ان کے حوالے سے رپورٹس چلائیں۔ بڑے بڑے گلو کاروں اور صاحبانِ اقتدار کے تعزیتی بیانات بھی آئے ہیں۔ میں نے کئی ٹویٹس بھی کیں اور لکھا بھی کہ زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے، بظاہر خان صاحب کا آخری وقت چل رہا ہے۔ پنجاب گورنمنٹ اگر خان صاحب کے مفت علاج کا اعلان کر دے تو خان صاحب کا آخری وقت اچھا گزرجائے گا اور سرکار کو نیک نامی ملے گی۔ بڑے فن کاروں کا حق ہوتا ہے کہ سرکار ان کے علاج معالجے کے لئے کچھ کرے، خاص طور پر پنجاب گورنمنٹ مگر ظاہر ہے سرکار کو اس سے زیادہ اہم کام کرنے ہوتے ہیں لہذا انھوں نے آرام سے انتظار کیا اور وہ وقت آن پہنچا جب وہ اپنے تعزیتی بیان جاری کر سکیں۔
خان صاحب دبے لفظوں میں اپنی نا قدری کا گلہ کرتے تھے۔ وہ ایک درویش صفت انسان تھے۔ ایک دنیا ان کے فن کی معترف تھی۔ مگر وہ ہمیشہ بڑے بول سے گریز کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ اچھے اور صاف سُتھرے کپڑے پہن کر گھر سے نکلا کرتے تھے۔ کبھی انھوں نے ریڈیو یا ٹی وی آ کر اپنے لئے پروگرام نہیں مانگا۔ نہ کبھی کوئی سفارش کروائی۔ مجھ سے ان کا بہت قریبی تعلق تھا۔ کبھی پروگرام زیادہ دینے کا ذکر تک نہیں کیا۔ اگر کبھی بات بھی کی تو انتہائی دبے لفظوں میں۔
ایک دفعہ بجٹ کی کمی کے باعث شیڈول اس قسم کا بنا کہ ایک مہینے خان صاحب کو اور دوسرے مہینے سورج چاند کو پروگرام ملتا۔ میں نے دونوں کے ہر مہینے کر دیے۔ کسی نے اعتراض کیا تو میں نے جواب دیا آپ ان جیسا گاتے ہیں تو اعتراض کریں۔ سور ج اور چاند کو بھی اے سے ڈبل اے کیٹیگری میں کیا۔
استاد حامد علی خان کے بہنوئی نزاکت صاحب ویسے تو وائلن نواز تھے۔ گو کہ میں نے انھیں کبھی وائلن بجاتے نہیں دیکھا۔ وہ ریڈیو کے مستقل ملازم تھے۔ وہ میوزک کے شعبے میں پروڈیوسر کے دست و بازو تھے۔ ایک دفعہ میں نے کہا کہ حسین بخش صاحب سے غزل ریکارڈ کروائیں۔ ایک دو دفعہ بات کی مگر بات نہ بنی۔ مجھے نزاکت صاحب نے کہا گُلو صاحب کُھلا گانے والے ہیں آپ پانچ دس منٹ میں انھیں مقید نہ کریں ۔ انھیں کہیں کہ وہ اپنی مرضی سے غزل گائیں تو آسانی سے گا لیں گے ۔ واقعی ہی پھر ایسا ہوا۔
خان صاحب ایک دفعہ میرے ساتھ گاڑی میں جا رہے تھے۔ کہنے لگے “چوہدری صاحب میں کہیں پکا ملازم نہیں ہو سکتا جیسے پولیس بینڈ میں؟” میں نے کہا خان صاحب آپ کیسی بات کر رہے ہیں۔ آپ کا مقام بہت بلند ہے۔ آپ کا تو وظیفہ لگنا چاہیے۔
عطا الحق قاسمی صاحب جس زمانے میں الحمراء کے سربراہ تھے۔ برادرم ابرار ندیم کو کہہ کر خان صاحب کو ایک معقول رقم یک مشت دلوائی۔ بعد ازاں خان صاحب مستقل الحمراء میں میوزک سکھاتے رہے۔
شکر ہے ان کے آخری ایام میں الحمراء کے ڈائریکٹر برادرم عاصم چوہدری کو فون کیا تو انھوں نے فوراً یہ ذمہ داری چاند خان کو دے دی۔
سچی بات ہے استاد حسین بخش گُلو کی پولیس بینڈ میں بھرتی والی بات سُن کر اس وقت بھی میرا دل بھر آیا تھا اور آج بھی وہ بات یاد کرکہ تکلیف ہوتی ہے۔ لیکن اس بات سے خان صاحب کی معصومیت اور بھول پن بھی آشکار ہوتا ہے۔
گو کہ خان صاحب کی گائیکی اپنے اندر شام چوراسی اور پٹیالہ دونوں انگ لئے ہوئے تھی مگر انھوں نے اپنے ایک انٹرویو میں مجھے بتایا تھا کہ ان کا تعلق پٹیالہ گھرانے سے ہے۔
ان کا گانا بہت باریک اور فن کارانہ بھید بھاؤ لیے ہوئے تھا۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ ریاض کر کر کے ان کے پیٹ میں گولے پڑ چُکے ہیں۔ اپنے انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ صبح دوپہر شام ،ہر وقت میں ریاض میں ہوتا ہوں۔
استاد حسین بخش گُلو جیسا گُنی فن کار تا دیر اپنے فن کے باعث اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ رہے گا۔