یورپی یونین چیٹ جی پی ٹی جیسی مصنوعی ذہانت کے لیے قوانین بنانے پر متفق ہوئی ہے، تاہم فرانس، جرمنی اور اٹلی ان قوانین کی مخالفت کر رہے ہیں۔
ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق یورپی یونین نے مصنوعی ذہانت کے لیے قوانین بنانے پر اتفاق کیا ہے، جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ مغربی دنیا میں ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی کو کنٹرول کرنے والا یہ پہلا بڑا ضابطہ بننے جا رہا ہے۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق یورپی یونین سے وابستہ ممالک نے معاہدے تک پہنچنے کی کوشش میں تجاویز تیار کرنے میں ایک ہفتہ کا وقت لگایا ہے، ان میں تجاویز میں سب سے اہم جنریٹیو اے آئی ماڈلز کو ریگولیٹ کرنے کا طریقہ شامل ہے، جو چیٹ جی پی ٹی جیسے ٹولز بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے اس کے علاوہ اس میں بائیو میٹرک شناخت، جیسے چہرے کی شناخت اور فنگر پرنٹ اسکیننگ کا استعمال بھی شامل ہے۔
جرمنی، فرانس اور اٹلی نے جنریٹیو مصنوعی ذہانت جنہیں ‘فاؤنڈیشن ماڈلز’ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کے ماڈلز کو براہ راست ریگولیٹ کرنے کی مخالفت کی ہے۔
مذکورہ تینوں ممالک کا کہنا ہے کہ وہ اس کے بجائے حکومتوں کی جانب سے متعارف کرائے گئے ضابطہ اخلاق کے ذریعے مصنوعی ذہانت کے پیچھے موجود کمپنیوں سے سیلف ریگولیشن کی حمایت کرنے کے لیے تیار ہیں۔
جرمنی، فرانس اور اٹلی کی تشویش یہ ہے کہ حد سے زیادہ ریگولیشن یورپ کی چینی اور امریکی ٹیک کمپنیوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کی صلاحیت کو دباؤ میں لا سکتی ہے۔
واضح رہے کہ جرمنی اور فرانس یورپ کے سب سے زیادہ مصنوعی ذہانت کا استعمال کرنے والے ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ یورپی یونین کا اے آئی ایکٹ اپنی نوعیت کا پہلا ضابطہ اخلاق ہو گا جو خاص طور پر مصنوعی ذہانت کے استعمال کے لیے ہو گا۔ یہ اس قانون کے لیے کوششیں 2021 میں شروع ہوئی تھیں، جب یورپی کمیشن نے پہلی بار مصنوعی ذہانت کے لیے ایک مشترکہ ریگولیٹری اور قانونی فریم ورک کی تجویز پیش کی تھی۔
یہ قانون مصنوعی ذہانت کو “ناقابل قبول” سے لے کر مصنوعی ذہانت کی اعلیٰ، درمیانی اور کم خطرے والی اقسام میں تقسیم کرتا ہے۔
چیٹ جی پی ٹی اور دیگر جنریٹیو اے آئی ٹولز جیسے اسٹیبل ڈسفیوژن، گوگل کے بارڈ اور اینتھروپک کے کلاڈنے مصنوعی ذہانت کے ماہرین اور ریگولیٹرز کو چونکا کر رکھ دیا ہے جو وسیع مقدار میں ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے سادہ سوالات سے جدید جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔