چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس اعجاز الاحسن کو 18 نومبر کو لکھا گیا خط سامنے آ گیا ہے۔
چیف جسٹس نے خط میں لکھا ہے کہ میرے دروازے اپنے تمام ساتھیوں کے لیے ہمیشہ کھلے ہیں۔ میں انٹرکام اور فون پر بھی ہمیشہ دستیاب ہوں۔
آپ کا خط ملنے پر فوری رابطے کی کوشش کی، چیف جسٹس
انہوں نے جسٹس اعجازالاحسن کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آپ نے اپنے تحفظات کے لیے مجھے کال کی نہ ملاقات کے لیے آئے۔ آپ کا خط ملنے پر فوری آپ کے انٹرکام پر رابطہ کی کوشش کی لیکن جواب نہ ملا۔
چیف جسٹس نے لکھا کہ میں نے اپنے اسٹاف کو آپ کے ساتھ رابطے کا کہا تو بتایا گیا کہ آپ جمعہ دوپہر کو لاہور چلے گئے ہیں۔ ’ہمیں 6 دن کام کرنے کی تنخواہ ملتی ہے نہ کہ ساڑھے 4 دن کی۔
مزید پڑھیں
’آپ کے اعتراضات حقائق اور ریکارڈ کے بر خلاف ہیں، بینچز کی تشکیل کے حوالے سے کوئی تجویز ہے تو بتائیے اس حوالے سے اجلاس کا انعقاد کیا جائے گا‘۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ جج کی پہلی ذمہ داری عدالتی فرائض کی انجام دہی ہے۔
چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ مشورہ کرنے میں دلچسپی نہ ہوتی تو جس ایکٹ کو آپ نے معطل کیا تھا اس پر عمل کیوں کرتا؟ اگر مجھے ججز کمیٹی کے فیصلوں پر عمل نہ کرنا ہوتا تو اس کارروائی کو پبلک کیوں کرتا؟۔
خصوصی بینچز کسی جج کو نکالنے یا ڈالنے کے لیے تشکیل نہیں دیے جا رہے
خط میں لکھا گیا ہے کہ بینچز کی تشکیل ظاہر کرتی ہے کہ ہر جج کو ایک جیسا احترام دیا جاتا ہے، خصوصی بینچز کسی جج کو نکالنے یا ڈالنے کے لیے تشکیل نہیں دیے جا رہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس اعجاز الاحسن نے گزشتہ روز رجسٹرار کو خط لکھ کر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن کی جانب سے نومبر میں بھی اعتراض اٹھایا گیا تھا جس کا چیف جسٹس نے جواب دیا اور اب وہ خط سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کر دیا گیا ہے۔