گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میں کم عمری کی شادی کی انوکھی مثال سامنے آئی ہے جہاں پریپ کلاس کا لڑکا دُلہا بن گیا۔ ننھے دُلہے میاں کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں۔
وادی داریل دیامر کے علاقہ پھوگیچ سے تعلق رکھنے والے حق نواز نے کچھ روز قبل پریپ کلاس کا امتحان دیا جس کا نتیجہ تو تاحال نہیں آیا تاہم وہ دُلہن ضرور بیاہ لایا ہے۔
بشال میں تعلیم کا کوئی نظام نہیں، سماجی کارکن اشتیاق داریلی
سماجی کارکن اشتیاق داریلی کے مطابق حق نواز کے والد کو بولنے اور چلنے پھرنے میں عذر ہے۔ یہ لوگ داریل میں ہی بشال نامی گاؤں سے منتقل ہوکر پھوگیچ میں آئے ہیں۔ بشال میں تعلیم کا کوئی نظام نہیں ہے۔ کچھ عرصہ قبل اس علاقے میں غیر سماجی تنظیم کے ذریعے پرائمری اسکول کھولا گیا ہے جس میں حق نواز بھی زیر تعلیم ہے۔ اس نے حالیہ دنوں ہی پریپ کلاس کا امتحان دیا۔ اشتیاق داریلی کا کہنا تھا کہ اس بچے کی پیدائش 2009 کی ہے۔
56 فیصد بچوں کی کم عمری میں ہی شادی
2016-17 میں محکمہ ترقی و منصوبہ بندی گلگت بلتستان نے ایک سروے منعقد کرایا تھا جس کے مطابق گلگت بلتستان میں 56 فیصد بچے بالخصوص بچیاں قانونی عمر کو پہنچنے سے قبل ہی شادی کے بندھن میں بندھ جاتی ہیں۔
2015 میں گلگت بلتستان حکومت نے اس حوالے سے ایک قانون منظور کرانے کی کوشش کی تھی تاہم اسے اسمبلی سے خصوصی کمیٹی کو منتقل کر دیا گیا اور بعد میں عدم توجہی کا شکار ہوگیا۔
2021 میں اس حوالے سے منعقدہ حکومتی سروے کے مطابق تقریباً 27 فیصد بچیاں 18 سال سے قبل ہی بیاہی جاتی ہیں جبکہ 7 فیصد بچیوں کی 15 سال کی عمر سے قبل ہی شادی ہو جاتی ہے۔ ضلع دیامر میں یہ شرح سب سے زیادہ ہے جہاں پر ایسی بچیوں کی شرح 47 فیصد ہے۔
نیشنل کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن کو تشویش
رواں برس اکتوبر میں نیشنل کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن کے تحت گلگت میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں اس حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کم عمری کی شادی کو روکنے کے لیے قانون سازی کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔