وزیراعظم نواز شریف چوتھی بار مختلف ثابت ہوں گے؟

جمعرات 14 دسمبر 2023
author image

وسی بابا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کیس میں نواز شریف کی اپیل منظور ہو گئی۔ اس کے ساتھ ہی ان پر مقدمات کا خاتمہ ہو گیا۔ تاحیات نااہلی پر کنفیوژن ضرور ہے لیکن اس پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لے رکھا ہے۔ بظاہر نواز شریف کے راستے کی تمام رکاوٹیں دور ہو چکی ہیں۔ اب وہ الیکشن میں حصہ بھی لیں گے۔ اس کے بعد ظاہر ہے درویشی تو اختیار کریں گے نہیں وزیر اعظم ہی بنیں گے۔ وزارت عظمیٰ کی 3 ٹرائیاں یہ پہلے لے چکے ہیں۔ ہر بار نکالے گئے۔ ہر بار واپس آئے، اب چوتھی باری سامنے ہے۔

نواز شریف اب اس ریجن میں پاور پالیٹکس کے سب سے پرانے کھلاڑی ہیں۔ انڈین وزیراعظم نریندرا مودی 1985 میں آر ایس ایس سے بی جے پی میں بجھوائے گئے تھے۔ نوازشریف اس سال وزیراعلیٰ بنے تھے۔ چینی صدر شی تب فوجان صوبے کی کاؤنٹی میں کیمونسٹ پارٹی کے آفیشل تھے۔ یہ 2 مثالیں ہیں جو بتاتی ہیں کہ نواز شریف غیر جماعتی اسمبلی سے بطور وزیراعلیٰ کک اسٹارٹ سے ہو رہے تھے۔ تب انڈین اور چینی لیڈر ابھی کیریئر شروع کر رہے تھے۔

نواز شریف بطور سیاستدان وقت کے ساتھ بہت تبدیل ہوئے ہیں۔ میثاق جمہوریت کے بعد والا نوازشریف پہلے والے سے مختلف ہو گیا۔ بینظیر کی شہادت نے پاکستانی سیاستدانوں کو اکٹھا کر دیا، جس کا نتیجہ 18ویں ترمیم کی صورت نکلا۔ 18ویں ترمیم کا کریڈٹ اگر کسی ایک فرد کو دینا ہو تو وہ صرف آصف زرداری ہیں۔ میثاق جمہوریت کے بعد نواز شریف نے سندھ اور خیبر پختونخوا سے رخصت لے لی۔ سندھ میں مسلم لیگ ن کے پاس کراچی کی کچھ پاکٹس کے علاوہ تھا بھی کچھ نہیں۔ خیبر پختونخوا میں البتہ مسلم لیگ ایک مستقل انتخابی قوت تھی اور بہت سے علاقوں میں موثر تھی۔

پنڈی کو جہاں مسئلہ تھا، کراچی، خیبر پختونخوا، فاٹا، بلوچستان ان ساری جگہوں سے مسلم لیگ غائب تھی۔ موجود ہوتی تو ایک اسٹیک ہولڈر ہوتی۔ پنڈی کا ہاتھ ہولا رہتا اور وہاں صورتحال بھی اتنی خراب نہ ہوتی۔ اب یہاں رک کر زرا کپتان کی پاور بیس چیک کریں۔ کراچی، فاٹا اور خیبر پختونخوا، ہر جگہ کپتان اپنے ووٹرز اور سپورٹرز سمیت موجود ہے۔ سپورٹر بھی ایسا جو روایتی سیاست سے اکتایا ہوا۔ پنڈی کا یہ فطری اتحاد کیسے نہ بنتا۔ مسلم لیگ ن نے یہ اسپیس چھوڑ کر سب سے بڑی غلطی کی۔ سندھ پی پی پی کے لیے چھوڑنے کا فائدہ یہ ہوا کہ پی پی پی کو وفاق میں ہار کر بھی طاقت میں اپنا شیئر ملتا رہا۔ جمہوری حکومتیں چلتی رہیں۔ چھوٹے صوبوں کی قوم پرست جماعتیں نوازشریف کی مستقل اتحادی ہو گئیں۔ ایک کسر رہتی تھی وہ مولانا کے آنے سے پوری ہو گئی۔

سیاسی جماعتوں کے اتحاد نے سیاست میں مداخلت کو مشکل بنا کر رکھ دیا۔ ہم ایک کارنر پلاٹ پر موجود سیکیورٹی اسٹیٹ ہیں، ایٹمی قوت ہیں، دنیا کے 2 سب سے بڑے آبادی اور معیشت والے ملکوں چین اور انڈیا کے ہمسائے ہیں۔ 2 قدم پر روس ہے۔

’4 ایٹمی ملک، 2 ویٹو پاور، افغانستان، کشمیر، سنکیانگ، ایران، دہشت گردی کے خلاف جاری جنگیں، گلگت بلتستان، بلوچستان اور گوادر۔ اتنا کچھ اکٹھا سامنے رکھیں اور پھر سوچیں کہ پنڈی کیسے لاتعلق وغیرہ رہ سکتا ہے‘۔

پاکستان ایک زبردست ملک ہے۔ فرقہ واریت میں ہم نے عالمی ریکارڈ بنائے ہوں گے۔ پھر بھی ایران دل سے بلکہ محبوب والے دل سے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے۔ آپ کو نہیں سمجھ آئی ہو گی۔ کسی راہ جاتے افغان کو روکیں اس سے پوچھیں کہ 40 سال سے جنگ بربادی کے مزے آ رہے ہیں۔ وہ جواب میں اپنی ہر تباہی کا الزام پاکستان پر رکھ دے گا۔ گزارا کرے گا تو اٹک ورنہ جہلم تک کو اپنا علاقہ بتا دے گا، دہلی کا نام نہیں لے گا جہاں اس کی حکومت بھی رہی، خیر! ہم سے اتنے خفہ ناراض افغانوں کو اب پاکستان چھوڑنے کا کہا جا رہا ہے تو وہ کہتے ہیں ’زہ نہ زم‘ میں نہیں جاؤں گا۔ کیسا یعنی تمہی نے درد دیا تمہی سے دوا لینی ہے وہ بھی مفت۔ پاکستان ایسا ملک ہے۔ امید ہے آپ کو کچھ سمجھ آئی ہو گی کہ ہم کتنا تضادات کے حامل ہیں، جنہیں ہم برے لگتے ہیں وہ ہمیں دل سے چاہتے بھی ہیں۔

پاکستان میں سیاستدانوں کے اتحاد اور سیکیورٹی والے اینگل کو اگنور کرنے کی وجہ سے کپتان کی صورت میں ایک نیا آپشن سامنے لایا گیا تھا۔ کپتان نے جب اور سناؤ باجوے والی لائن پکڑی تو اگلوں کو اندازہ ہو گیا کہ کیا کر بیٹھے ہیں۔ پھر کورس کریکشن شروع ہوئی۔ پی ڈی ایم حکومت آئی ساتھ مہنگائی لائی۔ بھٹو کی پھانسی کا مقدمہ عدالت میں لگا ہے، نوازشریف کے مقدمات ختم ہو گئے ہیں۔ سیکیورٹی پالیسی تبدیل ہونے کی نشانی ہے کہ افغان مہاجرین کو واپس بھجوایا جا رہا ہے۔ جو کپتان کو لائے تھے وہی اس کا علاج بھی کر رہے ہیں۔ ان کا گلہ ہے کہ سیاستدان ان کا بوجھ بٹا نہیں رہے۔ سیاسی حل نہیں نکال رہے۔ لیکن جو طے ہوا تھا لگتا ہے کہ اس پر عمل ہو رہا ہے۔ نوازشریف اب جب وزیر اعظم بنیں گے تو مختلف ہوں گے۔ وجہ یہ ہے کہ لڑنے والوں کی بنیادی امور پر صلح ہو چکی۔ پی ٹی آئی اپنے سبق خود نہیں سیکھ رہی تو وقت سکھا دے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp