’میں مجرم کو سزا ہوتے دیکھنا چاہتا ہوں‘، والد سارہ انعام

جمعرات 14 دسمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے علاقے چک شہزاد میں بے دردی سے قتل کیے جانے والی پاکستانی نژاد کینیڈین شہری سارہ انعام کے قتل کیس کے مرکزی ملزم کو سزائے موت سنادی گئی ہے۔

جمعرات کو اسلام آباد کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے سارہ انعام کے شوہر شاہنواز امیر کو سزائے موت سنائی جبکہ ملزم کی والدہ کو باعزت بری کردیا گیا ہے۔

مجرم شاہنواز امیر سینیئر صحافی و کالم نگار ایاز امیر کے بیٹے ہیں۔ گزشتہ برس ستمبر میں شاہنواز امیر نے اپنی اہلیہ سارہ انعام کو سر پر ڈمبل مار کر قتل کر دیا تھا، جبکہ وقوعہ کے وقت گھر میں مجرم کی والدہ بھی موجود تھیں۔ پراسیکیوشن نے شاہنواز امیر کے ساتھ ان کی والدہ اور والد ایاز امیر کو بھی شریک ملزم نامزد کیا تھا، تاہم ایاز امیر کو عدالت نے کیس سے بری کردیا تھا۔

مجرم کی والدہ کو عدالت نے بے قصور قرار دیتے ہوئے کہا کہ پراسیکیوشن ان کے ملوث ہونا ثابت نہیں کر سکی جس کے باعث انہیں باعزت بری کیا جاتا ہے۔

کمرہ عدالت میں جذباتی مناظر

کمرہ عدالت میں جب ملزم کو لایا گیا تو وہ اپنی والدہ کے ساتھ بیٹھ گیا جبکہ ان کے والد ایاز امیر جج کے سامنے والی کرسی پر براجمان تھے۔

مقتولہ کے والد، والدہ اور دیگر رشتہ دار بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے جبکہ نور مقدم کے والد شوکت مقدم بھی فیصلہ سننے کے لیے کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

عدالت میں رش زیادہ ہونے پر ملزم شاہنواز نے حیرت کا اظہار کیا اور والدہ سے کہا کہ آج رش زیادہ ہے ماموں کو جگہ دے دیں۔ جس پر والدہ نے انہیں بتایا کہ آج میڈیا کی وجہ سے رش زیادہ ہے۔

عدالت نے جب مرکزی ملزم کی والدہ کو باعزت بری کیا اور مرکزی ملزم شاہنواز امیر کو پھانسی کی سزا سنائی تو مقتولہ کے اہل خانہ ایک دوسرے سے لپٹ کر زار و قطار رونے لگ گئے۔ شوکت مقدم نے آگے بڑھ کر سارہ انعام کے والد کو گلے لگایا اور دونوں کے آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔ مقتولہ کے والد، وکلا، پولیس اور اپنے رشتہ داروں سے لپٹ لپٹ کر شکریہ ادا کرتے رہے اور ان کے آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔

سارہ انعام کے والد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’شاہنواز امیر کی حد تک تو ہم مطمئن ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس قتل میں ان کی والدہ بھی ملوث ہیں اور ان کو بھی کچھ نہ کچھ سزا ضرور ملنی چاہیے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’میں مجرم کو سزا ہوتے دیکھنا چاہتا ہوں، نور مقدم کا بھی کیس سپریم کورٹ میں زیرالتوا ہے، میری اپیل ہے کہ دونوں کیسز کا جلد از جلد فیصلہ کیا جائے تاکہ مجرم کو سزا ہوسکے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ایسا نہ ہوا کہ مجرم سزا کے باوجود باہر نکل آئے کیونکہ ہم سنتے ہیں کہ ایسا بھی ہوتا ہے‘۔

اب کم از کم یہ لوگ بھی تڑپیں گے‘، والدہ سارہ انعام

سارہ انعام کی والدہ نے فیصلہ پر اظہار تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’میں خوش ہوں کہ آج مجرم کو سزا سنائی گئی ہے۔ ہم یہی چاہتے تھے، اب کم از کم یہ لوگ بھی تڑپیں گے‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp