بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے 7 سال مکمل

جمعہ 3 مارچ 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

قابل اجمیری نے کہا تھا کہ :وقت کرتا ہے پرورش برسوں ۔ ۔ ۔ ۔ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا !

کئی برس کی دہشت گردانہ سرگرمیوں اور مذموم مقاصد کے حصول میں سرگرداں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو  بالآخر پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گرفت میں آ گئے تھے۔ آج ان کی گرفتاری کے سات برس مکمل ہو گئے ہیں۔

تین مارچ 2016کو پاکستانی ایجنسیوں نے چمن کے علاقے ماشخیل سے کلبھوشن یادیو کو گرفتار کیا تھا۔ 53 سالہ کلبھوشن یادیو 2003 سے بھارتی ایجنسی ’را‘ کے لیے پاکستان میں منظم دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث تھا۔

کلبھوشن یادیو، حسین مبارک پٹیل کے نام سے پاکستان میں دہشت گری کا نیٹ ورک چلا رہا تھا۔ یادیو نے اپنے اعترافی بیان میں کہا کہ ’را‘ پاکستان میں انتشار پھیلانے اور معصوم پاکستانیوں کے خون بہانے میں ملوث تھی۔

’ہمارا ہدف سی پیک گوادر بندرگاہ اور بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریک کو ہوا دینا تھا۔ 2003 میں چاہ بہار ’ایران‘ میں جعلی پاسپورٹ پر داخلے کے بعد سکریپ کے کاروبار کی آڑ میں بلوچ علیحدگی پسندوں کا نیٹ ورک پروان چڑھایا‘۔

ستمبر 2016 میں پاکستان نے کلبھوشن یادیو اور ’را‘ کی پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں پر مبنی ڈوزیئر بھی اقوامِ متحدہ کے حوالے کیا تھا۔

بھارت نے کلبھوشن یادیو کو بھارتی شہری تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ 10 اپریل 2017 کو پاکستان کی طرف سے کلبھوشن کی سزائے موت کے اعلان پر بھارت میں کھلبلی مچ گئی تھی۔

بھارت کا کلبھوشن یادیو کا مقدمہ لڑنا پاکستان میں بھارت کی طرف سے دہشت گردانہ کارروائیوں کا اعتراف ہے۔ اعلیٰ عہدے کے حاضر سروس انٹیلی جنس آفیسر کا پاکستان میں گرفتار ہو جانا ’را‘ کا پاکستان میں انتشار اور دہشت گردی پھیلانے کا ثبوت ہے۔

کلبھوشن یادیو کیس: کب کیا ہوا؟

کمانڈر کلبھوشن یادیو کو تین مارچ 2016 کو مشخیل، بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔ بھارتی جاسوس نے اعتراف کیا تھا کہ وہ بھارتی نیوی میں حاضر سروس کمانڈر رینک کے افسر ہیں اور 2013 سے خفیہ ایجنسی ’را‘ کے لیے کام کر رہا ہے۔

بھارتی جاسوس چاہ بہار میں مسلم شناخت کے ساتھ بطور بزنس مین کام کر رہا تھا۔ اس دوران کلبھوشن 2003 ، 2004 میں کراچی بھی آئے جبکہ بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی کی کئی وارداتوں میں بھی ان کے نیٹ ورک کا ہاتھ تھا۔

پاکستان نے 24 مارچ 2016 کو ابتدائی تحقیقات کے نتائج میڈیا پر نشر کئے۔ 25 مارچ 2016 کو پاکستان نے بھارتی سفیر کو طلب کرکے ’را‘ کے جاسوس کے غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہونے اور دہشت گردی میں ملوث ہونے پر باضابطہ احتجاج کیا اور احتجاجی مراسلہ دیا۔

29 مارچ 2016 کو کلبھوشن یادیو کے اعترافی بیان کی ویڈیو جاری کی گئی۔ آٹھ اپریل 2016 کو ایف آئی آر ، سی ٹی ڈی کوئٹہ میں درج کی گئی جس کے بعد باقاعدہ تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔

دو مئی 2016 سے 22 مئی 2016 تک کلبھوشن یادیو سے تفتیش کی گئی جبکہ 12 جولائی 2016 کو جے آئی ٹی کی تشکیل ہوئی۔22 جولائی 2016 کو کلبھوشن یادیو نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنا اعترافی بیان ریکارڈ کروایا۔

اکیس ستمبر 2016 کو کلبھوشن یادیو کے خلاف ملٹری کورٹ میں کارروائی کا آغاز کیا گیا۔ 24 ستمبر کو شہادتیں ریکارڈ کی گئیں۔ چوتھی سماعت 12 فروری 2017 کو ہوئی۔

23جنوری2017کو پاکستان نے کلبھوشن کیس میں تحقیقات کےلیے بھارتی حکومت سے معاونت کی درخواست کی۔ 21 مارچ 2017 کو پاکستان نے بھارت سے تحقیقات میں معاونت کا مؤقف پھر دہرایا اور واضح کیا کہ کلبھوشن تک کونسلر رسائی کے لیے معلومات کا تبادلہ ضروری ہے۔ لیکن بھارت کی جانب سےکوئی جواب نہیں دیا گیا۔

10 اپریل 2017 کو ملٹری کورٹ نے کلبھوشن یادیو کو دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے جرم میں سزائے موت کا حکم دیا۔ جس کی توثیق اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کی۔

پھانسی کی سزا کے بعد بھارت نے 9 مئی 2017 کو عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن کی پھانسی کے خلاف اپیل دائر کی اور موقف اپنایا کہ ان پر چلایا جانے والا مقدمہ فیئر ٹرائل نہیں تھا۔ سزا سنائے جانے سے قبل ان تک بھارت کو سفارتی رسائی نہیں دی گئی۔

بھارت نے پاکستان میں مقدمہ فوجی عدالت میں چلائے جانے پر بھی اعتراض کیا تاہم بھارت نے عالمی عدالت میں ان کی ریٹائرمنٹ کے ثبوت پیش نہیں کیے۔

عالمی عدالت انصاف نے کیا فیصلہ دیا تھا؟

عالمی عدالت انصاف میں چار دن تک جاری رہنے والی سماعت کے بعد 21 فروری 2019 کو فیصلہ محفوظ کیا گیا جو 17 جولائی 2019 کو سنایا گیا۔

فیصلے میں کلبھوشن یادیو کی بریت کی درخواست کو مسترد کیا گیا تھا جبکہ عالمی عدالت نے کہا’کلبھوشن یادیو کوسنائی جانے والی سزا کو ویانا کنونشن کے آرٹیکل 36 کی خلاف ورزی تصور نہیں کیا جا سکتا‘۔

عالمی عدالت انصاف نے کلبھوشن کی رہائی اور بھارت واپسی اور پاکستان کی فوجی عدالت سے کلبھوشن کی سزا ختم کرنے کی بھارتی درخواست بھی رد کر دی تھی۔

عالمی عدالت انصاف نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ کلبھوشن کو قونصلر رسائی دے اور اسے دی جانے والی سزا پر نظر ثانی کرے۔

20 مئی 2020 کو پاکستان نے آئی سی جے ’ریویو اینڈ ری کنسیڈریشن آرڈننس‘لاگو کیا جس کے تحت کلبھوشن یادیو یا اسکا وکیل آرڈیننس جاری ہونے کے 60 دن کے اندر رحم کی اپیل دائر کرسکتے ہیں۔

کلبھوشن نے اپیل کا حق لینے سے انکار کر دیا۔ بھارت نے بھی دفتر خارجہ کی جانب سے رابطہ کرنے کے باوجود کلبھوشن کیس میں وکیل مقرر کرنے پر کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔

حکومت نے سیکرٹری قانون کے توسط سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تاکہ کلبھوشن کے لیے وکیل مقرر کر کے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد کرایا جا سکے۔کیس تاحال جاری ہے بھارت کی عدم دلچسپی کے باعث وکیل تقرری کا معاملہ حل نہیں ہو سکا۔

کلبھوشن یادیو سے پہلے کتنے جاسوس پکڑے گئے؟

قیام پاکستان کے بعد سے ہی بھارت کے جاسوس پاکستان میں اپنے مذموم مقاصد اور دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ اس دوران بارہ سے زائد بھارتی جاسوسوں کو سزا ہوئی جن میں اکثر کو سزائے موت سنائی گئی لیکن ان کی سزا پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ ان میں کئی لوگ جیل میں ہی وفات پا گئے۔ چند ایسے جاسوس جن کا میڈیا پر خاصا چرچا رہا ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

کشمیر سنگھ

کشمیر سنگھ 1973 میں پاکستان میں جاسوسی کے الزام میں گرفتار ہوئے۔ پاکستان کی جیلوں میں 35 برس گزارنے کے بعد انہیں 2008 میں رہا کیا گیا تو بھارت میں ان کا بھرپور استقبال کیا گیا۔

کشمیر سنگھ کی رہائی میں انسانی حقوق کے کارکن انصار برنی کی کوششوں کا عمل دخل تھا۔ پاکستان میں موجودگی کے دوران کشمیر سنگھ نے خود کو ہمیشہ بے قصور قرار دیا لیکن بھارت پہنچتے ہی اس نے اعتراف کیا کہ وہ جاسوسی کے لیے پاکستان گیا تھا۔

ونود سانہی

ونود سانہی 1977 میں پاکستان میں گرفتار ہوئے۔11 برس پاکستانی جیلوں میں گزارنے کے بعد 1988 میں رہائی ملی۔ونود سانہی نے بھارت میں سابق جاسوسوں کی فلاح کے لیے’جموں ایکس سلیوتھ ایسوسی ایشن‘ نامی تنظیم قائم کر رکھی ہے۔

ونود سانہی کے بقول’وہ ٹیکسی ڈرائیور تھے جب ان کی ملاقات ایک بھارتی جاسوس سے ہوئی جس نے انہیں سرکاری ملازمت کی پیشکش کی۔ پھر انہیں پاکستان بھیجا گیا لیکن جب وہ پاکستانی قید سے رہا ہوئے تو بھارت سرکار نے ان کی مدد نہیں کی۔

سربجیت سنگھ

سربجیت سنگھ کو پاکستان کے خفیہ اداروں نے اگست 1990 میں گرفتار کیا تھا۔ بھارت کا موقف تھا کہ نشے میں دھت پنجابی کاشت کار کھیتوں میں ہل چلاتے ہوئے غلطی سے سرحد پار کر گیا تھا۔

پاکستان نے طویل تحقیقات کے بعد سربجیت سنگھ کے خلاف فیصل آباد، ملتان اور لاہور میں دھماکوں کے الزامات میں مقدمہ چلایا اور اسے موت کی سزا سنائی گئی۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاک بھارت جامع مذاکرات کا سلسلہ جاری تھا تو انڈیا میں کچھ غیر سرکاری تنظیموں نے سربجیت سنگھ کی رہائی کی مہم چلائی۔ کئی بار ایسا لگا کہ پاکستان سربجیت کو رہا کر دے گا لیکن مذاکرات کی ناکامی کے بعد سربجیت سنگھ کی رہائی کھٹائی میں پڑ گئی۔

سربجیت 2013 میں کوٹ لکھپت جیل میں قیدیوں کے ایک حملے میں زخمی ہوا اور جانبر نہ ہو سکا۔ سربجیت سنگھ کی لاش بھارت کے حوالے کی گئی۔ جہاں سربجیت سنگھ کو سرکاری اعزازات کے ساتھ دفن کیا۔

رویندرا کوشک

رویندرا کوشک ایک ایسے بھارتی جاسوس تھے جو 25 برس تک پاکستان میں رہے۔ رویندرا کوشک راجستھان میں پیدا ہوئے۔

جب انھیں بھارتی اداروں نے بھرتی کیا تو وہ ایک تھیٹر آرٹسٹ تھے۔ اردو زبان اور مذہب اسلام کے بارے میں خصوصی تعلیم کے بعد انھیں نبی احمد شاکر کے نام سے پاکستان بھیجا گیا۔

پاکستان بھیجے جانے سے پہلے انہوں نے ختنے بھی کروا لیے تھے۔ وہ نہ صرف بہت کامیابی سے کراچی یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے بلکہ انھوں نے پاکستان میں شادی بھی کر لی تھی اور ان کا بچہ بھی تھا۔

کراچی یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ پاکستان افواج میں کلرک کے طور پر بھرتی ہوئے اور پھر ترقی کرتے ہوئے کمشنڈ افسر بن گئے اور پھر وہ ترقی کرتے ہوئے میجر کے عہدے تک پہنچ گئے۔

رویندرا کوشک کی گرفتاری ایک اور بھارتی جاسوس کی گرفتاری کے بعد عمل میں آئی جسے خصوصی طور پر میجر رویندرا کے ساتھ رابطے کے لیے بھیجا گیا تھا۔

رویندرا کوشک کی گرفتاری کے بعد انھیں پاکستان کی مختلف جیلوں میں 16 برس تک رکھا گیا اور 2001 میں ان کی موت جیل میں ہوئی۔

رام راج

دو ہزار چار میں لاہور میں گرفتار ہونے والے رام راج شاید واحد ایسے بھارتی جاسوس تھے جو پاکستان پہنچتے ہی گرفتار ہوگئے۔ انھیں چھ برس قید کی سزا ہوئی اور جب وہ اپنی سزا کاٹ کر واپس انڈیا پہنچے تو انھیں بھارتی اداروں نے پہچاننے سے انکار کر دیا۔

وہ پاکستان آنے سے پہلے اٹھارہ برس تک بھارت کے خفیہ ادروں میں کام کر چکے تھے۔

سرجیت سنگھ

سرجیت سنگھ نے 30 برس پاکستانی جیلوں میں گزارے۔ سرجیت سنگھ کو 2012 میں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل سے رہا کیا گیا اور وہ واپس انڈیا پہنچے تو کشمیر سنگھ کے برعکس ان کا کسی نے استقبال نہ کیا۔

سرجیت سنگھ دعویٰ کرتے رہے کہ وہ پاکستان میں ’را‘ کا ایجنٹ بن کر گئے تھے لیکن کسی نے ان کی بات پر کان نہ دھرے۔

سرجیت سنگھ نے اپنی رہائی کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے بھارتی حکومت کے رویے پر غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ بھارتی حکومت ان کی غیر موجودگی میں ان کے خاندان کو 150 روپے ماہانہ پینشن ادا کرتی تھی جو اس بات ثبوت ہے کہ وہ `را‘ کے ایجنٹ تھے۔

سرجیت سنگھ گرفتاری سے پہلے پچاسی بار پاکستان کا دورہ کر چکے تھے جہاں وہ دستاویزات حاصل کر کے واپس لے جاتے تھے۔

گربخش رام

گربخش رام کو 2006 میں 19 دوسرے بھارتی قیدیوں کے ہمراہ کوٹ لکھپت سے رہائی ملی۔ گربخش رام پاکستان میں شوکت علی کے نام سے جانے جاتے تھے۔

اٹھارہ برس تک پاکستانی جیلوں میں رہے ۔ گربخش رام کو 1990 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ کئی برس پاکستان میں گزارنے کے بعد واپس انڈیا جا رہے تھے لیکن پاکستان کے خفیہ اداروں کے ہاتھ لگ گئے۔

بھارتی جریدے ٹائمز آف انڈیا میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق گربخش رام نے ریاستی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ ان کو وہ سہولتیں دینے سے انکاری ہیں جو سربجیت سنگھ کے خاندان کو ملی ہیں۔

انھوں نے پنجاب کے چیف منسٹر پرکاش سنگھ بادل سے بھی ملاقات کی لیکن انھیں سرکاری ملازمت نہیں دی گئی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp