نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ کشمیر کے لیے پاکستان پر 3 جنگیں تھوپی گئیں لیکن اپنے خطے کے لیے ہم 3 تو کیا 300 جنگوں کے لیے بھی تیار ہیں۔
جمعرات کو آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ پاکستان کی بھی چھتیس گڑھ سے لے کر آسام تک نظر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری پہلی دفاعی لائن کشمیر اور بارہ مولہ ہے۔
وزیراعظم نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے حوالے سے 3 روز قبل کے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کٹھ پتلی عدالتی فیصلوں سے زمینی حقائق تبدیل نہیں کیے جاسکتے۔
مزید پڑھیں
انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ پاکستانیوں کے دل اپنے کشمیری بہنوں اور بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے غیر قانونی اقدامات سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی متزلزل نہیں بلکہ اور مضبوط ہو گی۔
وزیراعظم نے واضح کیا کہ بھارت کے غیر قانونی اقدامات سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی متزلزل نہیں ہو گی بلکہ اور مضبوط ہو گی،پاکستانیوں کے دل اپنے کشمیری بہنوں اور بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔
نگراں وزیر اعظم نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل طلب ہے، یہ بھارت ہی تھا جو جموں کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں لے گیا اور پھر خود ہی اس کی قراردادوں سے انحراف کرتا چلا آ رہا ہے۔ 7 دہائیوں سے بھارت کشمیریوں پر ظلم و بربریت جاری رکھے ہوئے ہے۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں دو ٹوک اور واضح طور پر کہا گیا ہے کہ کشمیری عوام کو استصواب رائے کا حق دیا جانا چاہیے۔
پاکستان کا مؤقف واضح اور دو ٹوک ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو ان کا حق خودارادیت دیا جائے۔ پاکستان کی تاریخ بھی واضح ہے کہ پاکستان نے کبھی بھی کشمیری عوام کو تنہا نہیں چھوڑا، آئندہ بھی کسی بھی مقام پر مسئلہ کشمیر سے پہلو تہی نہیں کی جائے گا۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ جموں کشمیر عالمی سطح پر نا مکمل ایجنڈا ہے اس لیے کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ عالمی برادری بھارت کے اس اقدام اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کا نوٹس لے۔
انہوں نے کہا بھارت نے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کر کے جموں کشمیر کے عوام کو اپنی ہی دھرتی پر بے گھر کرنے کی کوشش کی ہے۔ بھارت نے ان اقدامات سے نا صرف اقوام متحدہ اور سلامتی کونس کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی ہے بل کہ جنیوا کنونشن سے بھی روگردانی کی ہے۔
انوار الحق کاکڑ نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ یہ بھارت ہی تھا جو تنازع کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے گیا۔ ہندوستان کے بانیوں میں سے اس کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جوال لال نہرو نے کشمیری عوام کو ان اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے متعدد بار استصواب رائے کی یقین دہانی بھی کرائی تھی
21 نومبر 1947 کو وزیر اعظم پاکستان کے نام لکھے گئے اپنے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ کشمیریوں کو اقوام متحدہ یا کسی اور بین الاقوامی ادارے کی سرپرستی میں استصواب رائے یا ریفرنڈم کے ذریعے اپنے مستقبل کے فیصلے کا اختیار دیا جانا چاہیے۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ جوال لال نہرو کے بعد آنے والی بھارتی حکومت نے بھی کشمیریوں کے استصواب رائے کے حق کو تسلیم کیا ۔اب ہندوستان کی موجودہ قیادت ان وعدوں سے کیسے پیچھے ہٹ سکتی ہے؟ بھارت کو اقوام متحدہ، پاکستان اور سب سے بڑھ کر کشمیری عوام کے ساتھ اپنے دیرینہ وعدے کا احترام کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ رائے شماری کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں کیے گئے وعدے اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں اور یہ وقت کے ساتھ اپنی اہمیت کو کھو نہیں سکتے۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ آج میں کشمیر پر غیر ملکی، غیر قانونی تسلط اور کشمیری عوام کی جائز جدوجہد کی تاریخ کے اس نازک موڑ پر کشمیری عوام کے ساتھ پاکستان کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کرنے یہاں آیا ہوں۔
میں یہاں کشمیری عوام کے ساتھ ہونے والی سنگین ناانصافی کے تناظر میں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے آیا ہوں۔ 3 دن پہلے بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے ایک ایسا فیصلہ کیا گیا جو انصاف کے بجائے سیاسی محرکات پر مبنی تھا۔ سپریم کورٹ آف انڈیا نے 5 اگست 2019 کو بھارتی حکومت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کی توثیق کی جسے ہم مسترد نا صرف مسترد کرتے ہیں بلکہ انصاف کے قتل کی بھرپور مذمت بھی کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ غیر منصفانہ فیصلہ دنیا کی نام نہاد سب سے بڑی جمہوریت کے دائرہ کار میں سنایا گیا۔ درحقیقت بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا لقب دینا اسے بڑی جمہوریت سمجھنا غلط فہمی ہے۔ اس کے بجائے بھارتی رویے کو دنیا کی سب سے بڑی منافقت کہا جانا چاہیے۔جہاں ذات پات پر مبنی سماجی کارروائیاں، دھمکانے اور اقلیتوں کو ایک حاشیے میں رکھا جا رہا ہے اور سیکولرازم اور جمہوریت تنوع کے کھوکھلے نعرے لگائے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ستم ظریفی یہ ہے کہ دنیا کی خود ساختہ سب سے بڑی جمہوریت کشمیری عوام کو استصواب رائے کا جمہوری حق دینے سے بھی خوفزدہ ہے۔ بھارت کے 5 اگست 2019 کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات اور اس کے بعد کے متعدد اقدامات کا مقصد مقبوضہ جموں کشمیر پر غیر قانونی قبضے اور اس کے آبادیاتی ڈھانچے اور سیاسی منظر نامے کو تبدیل کرنا ہے۔
یہ اقدامات بین الاقوامی قانون کے ساتھ ساتھ جموں کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی بھی صریحاً خلاف ورزی ہیں۔بھارت کا مقصد کشمیریوں کو ان کی اپنی سرزمین پر ایک بے اختیار کمیونٹی میں تبدیل کرنا ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ تمام عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے
نگراں وزیر اعظم نے کہا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارت کی سپریم کورٹ نے ان اقدامات کی توثیق کی ہے۔ مقبوضہ جموں کشمیر میں بھارت کے مسلسل اقدامات اقوام متحدہ کے چارٹر، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور جنیوا کنونشن سمیت بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 1957 ء کی قرارداد 122، جسے بھارت نے قبول کیا ہے، میں واضح طور پر اعلان کیا گیا ہے کہ ریاست جموں کشمیر کا حتمی فیصلہ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام آزادانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کے جمہوری طریقہ کار کے ذریعے عوام کی مرضی کے مطابق کیا جائے گا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ جموں کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی جانب سے ریاست کی حتمی شکل و صورت کا تعین کرنے کے لیے کوئی بھی اقدام طے شدہ اصول کے مطابق ریاست کا طرز عمل نہیں ہوگا۔ بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے میں بھارتی حکومت کے 5 اگست 2019 کے اقدامات ان دفعات کی صریح خلاف ورزی ہیں۔
ظاہر ہے کہ بھارت کے انتظامی، سیاسی اور قانونی اقدامات بشمول جعلی انتخابات کا سلسلہ، آئین کی دفعہ 370، 2019 میں اس آرٹیکل کا خاتمہ اور اب بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ اس کے قبضے کو مستحکم کرنے کے لیے محض ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔
بھارت کی داخلی قانون سازی اور عدالتی فیصلے بھارت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت اس کی بین الاقوامی ذمہ داریوں سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔ بین الاقوامی قانون کی نظر میں بھارتی آئین کے تحت کوئی بھی عمل جموں کشمیر کی حتمی حیثیت کا تعین کرنے کے لیے جنگ کی صورت میں نہیں ہو سکتا۔
پاکستان بھارت کے تمام منفی ہتھکنڈوں کو مسترد کرتا ہے
وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان اور کشمیری عوام بھارت کے ان تمام قوانین اور ہتھکنڈوں کو مسترد کرتے ہیں۔ ہم کشمیری عوام کی ڈیموگرافی، ان کی سرزمین کی سالمیت پر مسلسل اور منصوبہ بند حملوں اور ان کی منفرد مذہبی اور ثقافتی شناخت کو چھیننے کی بار بار کوششوں کی مذمت کرتے ہیں۔
ہندوتوا پر مبنی قیادت جموں کشمیر پر محکومی اور قبضے کو برقرار رکھنے پر تلی ہوئی ہے۔ وہ نہتے کشمیری مردوں، عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
کشمیری عوام نے اپنے خون سے اپنی مزاحمت کی سرخ تاریخ لکھی ہے۔ اس موقع پر میں کشمیری عوام کی اس جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔
مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو متعدد بین الاقوامی اداروں نے دستاویزی شکل دی ہے ، جس میں 2018 اور 2019 میں جاری کردہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر کی دو رپورٹیں بھی شامل ہیں۔ آج میں دنیا سے پوچھتا ہوں کہ اس کا اجتماعی ضمیر کب بیدار ہوگا؟ کب تک کشمیری عوام قربانیاں دیتے رہیں گے؟
کب تک ان کی آواز دبائی جاتی رہے گی؟ کب تک ان کے رہنما من مانے طریقے سے حراست میں رہیں گے؟ اور کب تک وہ تشدد اور ماورائے عدالت سزائے موت کا سامنا کرتے رہیں گے؟
سید علی گیلانی کی آزادی کاخواب ضرور پورا ہو گا
وزیراعظم نے کہا کہ اس ریاستی دہشت گردی کی سرپرستی کا اب خاتمہ ہونا چاہیے۔ بھارتی حکام نے سید علی شاہ گیلانی کی میت چھین لی اور ان کے اہل خانہ کو ان کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں دی۔ وہ ایک وفات پا جانے والے آدمی سے اتنے کیوں ڈرتے تھے؟ سید علی گیلانی بھارتی قبضے اور ظلم و ستم کے خلاف ہمالیہ کی طرح بلند کھڑا تھا۔ وہ کشمیریوں کے دل میں رہتے ہیں اور ان کے آزادی کا خواب ضرور پورا ہو گا۔
بھارتی حکام نے یاسین ملک کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا ، خراب صحت کے باوجود، انہیں جھوٹے مقدمات میں گھسیٹا جا رہا ہے اور سیاسی محرکات پر مبنی مقدمات میں سزا سنائی جا رہی ہے۔ بھارت ان کا عدالتی قتل کیوں کرنا چاہتا ہے؟۔
نگراں وزیر اعظم نے کہا کہ بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باوجود بھارت کشمیری عوام کے جذبے کو دبانے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ کشمیری نسل در نسل، اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کرتے رہیں گے ۔
بھارت کا کوئی بھی قانون کشمیری عوام سے ان کا آزادی کا حق نہیں چھین سکتا
ان کا کہنا تھا کہ ’میں بھارتی رہنماؤں کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جموں کشمیر میں یکطرفہ اقدامات نہ تو ان کے قبضے کو قانونی حیثیت دے سکتے ہیں اور نہ ہی کشمیری عوام کے حقیقی جذبات کو دبا سکتے ہیں۔ظلم پر مبنی سیاسی کیمسٹری قانونی حیثیت کی جگہ نہیں لے سکتی۔
بھارت کی جانب سے کشمیر میں حالات معمول پر لانے کی کوشش ایک مضحکہ خیز بات ہے۔مقبوضہ کشمیر 10 لاکھ فوج کے ہوتے ہوئے کوئی یہ کیسے دعویٰ کر سکتا ہے کہ کشمیر میں حالات معمول پر آ گئے ہیں؟
وزیر اعظم نے کہا کہ کشمیر پاکستان کا سب سے بڑا راستہ ہے۔ لفظ پاکستان کشمیر کے بغیر نامکمل ہے۔ پاکستان کے عوام اور کشمیر کے عوام جغرافیائی قربت، مشترکہ تاریخ اور مشترک عقیدے کی بنیاد پر ایک منفرد رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔
ہم ایک دوسرے کی خوشیوں اور غموں میں شریک ہیں۔ جموں کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے پاکستان لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ پاکستان اس تنازع کا ایک فریق ہے۔ کشمیر ہمارے خون میں دوڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جموں کشمیر کا تنازع پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم پہلو ہے۔
پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق تنازع کشمیر کے حل کا پاپند ہے
ہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق تنازع جموں کشمیر کے منصفانہ اور پرامن حل میں اپنا کردار ادا کرنے کے پابند ہیں۔
سیاسی تقسیم سے بالاتر ہو کر پوری پاکستانی قیادت کشمیری عوام کے حق خودارادیت کے حصول کی منصفانہ جدوجہد کی حمایت کے لیے متحد ہے۔
پاکستانی عوام کی آنے والی نسلوں نے کشمیر کاز کی ثابت قدمی سے حمایت کی ہے اور ہم ایسا کرتے رہیں گے۔ پاکستان ہمیشہ اچھے ہمسایہ تعلقات کا خواہاں رہا ہے۔تاہم جنوبی ایشیا میں امن کا دارومدار تنازع جموں کشمیر کے حل میں ہے۔
پاکستان بھارت کے ساتھ تنازع کشمیر پر پرامن مذاکرات کے لیے تیار ہے
ہم نے جموں کشمیر کے مسئلے سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کے حل کے لیے تعمیری روابط اور نتیجہ خیز مذاکرات کی مسلسل وکالت کی ہے۔ تاہم بھارت کی بے لگام دشمنی اور رجعت پسندانہ اقدامات نے ماحول کو خراب کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام کی دیرینہ جدوجہد کو دہشت گردی قرار دینے کی کوئی بھی کوشش حقیقت کو توڑ موڑ کر پیش کرنے کے مترادف ہے۔ آزادی کی عمومی ترغیب اور دہشت گردی کے مکمل الزامات کے درمیان گہرے فرق کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔