کچھ شادیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں شرکت کے لیے چاہنے والے بیتاب ہوتے ہیں، سیاسی لیڈران ہوں، کھلاڑی ہوں، شوبز ستارے ہوں یا کوئی بھی سلیبریٹی، ان کی شادیوں میں شرکت کے لیے صرف خاص لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے۔
خاص لوگوں کی دعوت کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ چاہنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ان سب کو مدعو کرنا آسان کام نہیں ہوتا، لیکن پاکستان کی تاریخ میں بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی شادی ایسی شادی تھی جس میں ہر خاص و عام کو دعوت عام تھی، یہ تقریب کہاں، کیسی تھی اس میں کیا تھا، تیاریاں کتنے دن تک جاری رہیں اس حوالے سے وی نیوز نے آج سے 36 برس قبل اسٹیج پر موجود سعید جان بلوچ سے خصوصی بات چیت کی ہے۔
سینیئر صحافی سعید جان بلوچ جو گزشتہ 25 برس سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں اور پاکستان یونین آف جرنلسٹس کے نائب صدر بھی ہیں، نے بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی شادی میں پولیٹیکل ورکر کی حیثیت سے شرکت کی اور اسٹیج پر فرائض بھی سرانجام دیے۔
سعید جان بلوچ اپنی زندگی کا انوکھا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میں 18 دسمبر 1987 کو شہید محترمہ بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی شادی میں بحیثیت سیاسی کارکن شریک ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جب بے نظیر بھٹو کی شادی کی تقریب کا اعلان لیاری میں محمد علی جوہر پارک جسے ککری گراؤنڈ بھی کہا جاتا ہے میں منعقد کرنے کا فیصلہ ہوا تو لیاری کا ماحول خوشی میں بدل چکا تھا اور شادی کی تقریب سے پہلے ہی تیاریوں کا آغاز کردیا گیا، جو کہ ایک ہفتے تک جاری رہیں۔
ایسا محسوس ہوا جیسے لیاری کے ہر گھر میں شادی ہے
سعید جان کہتے ہیں کے ککری گراؤنڈ کے ارد گرد کی عمارتوں کو برقی قمقموں سے سجادیا گیا تھا، لیاری کے ہر چوک چوراہے پر جشن کا سا سما تھا، بلوچ روایتی رقص ’لیوا‘ ہوتا رہا اور ایسا محسوس ہونے لگا جیسے لیاری کے ہر گھر میں شادی ہے۔
یہ ایک عوامی شادی تھی
سینیئر صحافی کے مطابق یہ ایک عوامی شادی تھی جس میں ہر رنگ، نسل اور قوم کے باشندے شریک ہو سکتے تھے کوئی تفریق یا پابندی نہیں تھی، گراؤنڈ بھرا ہوا تھا تِل دھرنے کی جگہ نہیں تھی لوگوں کا آنے اور جانے کا سلسلہ رات گئے تک جاری رہا، اس گراؤند سے منسلک سڑک پر شامیانے بجتے رہے اور ڈھول باجوں کی دھن پر شہری رقص کرتے رہے۔
بے نظیر بھٹو خوش اور خوبصورت دکھائی دے رہی تھیں
سعید جان کا کہنا تھا کہ جس وقت بے نظیر بھٹو کی آمد ہوئی تو اس وقت پورا گراؤند ’نعرۂ بھٹو‘ سے گونج اٹھا، اس دن محترمہ بہت خوش دکھائی دے رہی تھیں۔ بے نظیر بھٹو نے سفید رنگ کا سنہری کڑھائی والا جوڑا پہن رکھا تھا اور ہاتھ میں ’امام ضامن‘ بندھا ہوا تھا۔
آصف علی زرداری محترمہ کے ہمراہ
سعید جان کا کہنا ہے کہ شادی کے لیے بوسکی بلوچوں کا روایتی لباس ہے یہی وجہ تھی کہ آصف علی زرداری نے اسی کا انتخاب کیا اور بوسکی کی ہی پگڑی باندھی ہوئی تھی اور پوری دُنیا سے لوگ اس شادی میں شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے۔
سنجے دت کے والد سنیل دت
سعید جان کے مطابق پڑوسی ملک بھارت سے بھارتی اداکار سنجے دت کے والد اور اس وقت کے مشہور اداکار سنیل دت بھی خاص طور پر اس شادی میں شرکت کے لیے پاکستان آئے تھے، اس کے علاوہ دُنیا بھر سے لوگوں کے ساتھ موسیقار ، کھلاڑی اور نامور شخصیات کا ایک میلا سا سجا ہوا تھا اور رات گئے تک یہ تقریب انہی رعنائیوں کے ساتھ جاری رہی ۔
شادی کی تقریب کب تک جاری رہی؟
سعید جان کہتے ہیں کہ دسمبر کا مہینہ تھا اور سردیوں کے دن تھے، مغرب کے بعد سے ہی لوگوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اور رات 8 بجے تقریبات شروع ہو چکی تھیں، ساڑھے 8 بجے محترمہ کی ککری گراؤنڈ میں آمد ہوئی، اس کے بعد رات 1 بجے تک محترمہ اسٹیج پر موجود رہیں۔ اس روز سب کی خواہش تھی کہ وہ محترمہ کو جتنے قریب سے ہوسکے دیکھیں کہ محترمہ کیسی لگ رہی ہیں، جس نے بھی انہیں قریب سے دیکھا وہ خوشی کا اظہار کر رہا تھا۔
بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی اسٹیج پر موجودگی
رات دیر تک جاری رہنے والی اس تقریب میں فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے رہے، ہر شخص کی خواہش تھی وہ اس سیاسی جوڑے کی جھلک دیکھ سکے، بینظیر بھٹو اس دن بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت کو احکامات دیتی رہیں، وہ خوش تھیں اور ساتھ ہی انتظامات پر بھی نظر تھی تا کہ تقریب میں شریک لوگوں کو کوئی تکلیف نا ہو، یہ بہت تاریخی دن تھا نا صرف لیاری کے عوام بلکہ پورے پاکستان کے لیے۔
ہو مبارک آج کا دن
سعید جان کہتے ہیں کہ وہ ایسے لمحات تھے جو شاید الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں، اُس وقت پیپلز پارٹی کے ترانے نہیں تھے لیاری کے ہر چوک میں استقبالی کیمپس لگائے گئے تھے جن میں شادیوں کے پاکستانی اور بھارتی روایتی گانے بجتے رہتے تھے انہوں نے ایک گانے کے بول یاد کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یاد ہے کہ اس روز یہ گانا ’ہو مبارک آج کا دن، شادمانی ہو شادمانی‘ تقریب میں چل رہا تھا۔
لیاری میں شادی کے لیے استقبالی کیمپس کس نے لگائے؟
سعید جان کے مطابق شادی کے لیے کی جانے والی تیاریاں پیپلز پارٹی کی جانب سے کی گئیں تھیں لیکن گراؤنڈ سے باہر لوگ خود ہی خوشی منا رہے تھے، ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے تھے، ہر خاص و عام تیاریاں دیکھنے گراؤنڈ جاتا تھا، ایسا ماحول تھا جیسے ان سب کے اپنے گھر کی شادی ہو۔
شادی کی تقریب کے لیے لیاری کا انتخاب کیوں کیا گیا؟
سعید جان کے مطابق بینظیر بھٹو یا پیپلز پارٹی کا کراچی میں سب سے مضبوط گڑھ لیاری تھا، لیاری کے لوگوں سے ان کی محبت و پیار فطری عمل تھا اور یہ محبت ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے مضافاتی علاقے پیپلز پارٹی کے لیے بہت اہم رہے ہیں اسی لیے ’محترمہ‘ نے لیاری کا انتخاب کیااور انہوں نے کہا تھا کہ وہ چاہتی ہیں کہ ان کی خوشیوں میں لیاری کے عوام بھی شریک ہوں۔
محترمہ کا عوام سے کوئی خطاب کیوں نہیں ہو سکا؟
بے نظیر بھٹو کے خطاب کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں سعید جان بلوچ کا کہنا تھا کہ اس دن کوئی خطاب نہیں ہوا، البتہ بے نظیر بھٹو اسٹیج سے وہاں پر موجود لوگوں، انتظامیہ اور پارٹی کے لوگوں سے بات چیت کرتی رہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ مسلسل گانے چلتے رہے، لوگ آ جا رہے تھے اور مہمانوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ عام لوگوں کے لیے انتظام کے حوالے سے سعید جان بلوچ کا کہنا تھا کہ کھانے کا کوئی انتظام نہیں تھا یہ بلکل ایسا تھا جیسے کوئی جلسہ ہوتا ہے، ہاں گراؤنڈ سے باہر لگائے جانے والے استقبالی کیمپوں میں کھانے پینے کے انتظامات کیے گئے تھے ۔
اس طرح کی شادی کسی اور کی بھی ہوئی؟
سعید جان بلوچ کا کہنا ہے کہ شادیاں تو ہوتی رہتی ہیں، چرچے بھی بہت ہوتے ہیں لیکن عوام کے درمیان رہ کر اس طرح شادی ہوتے ہوئے ہم نے کبھی نہیں دیکھا، اس تقریب کا کوئی دعوتی کارڈ نہیں تھا، دعوت عام تھی، سب کو آنے کی اجازت تھی، خواتین کے داخلے کے لیے الگ گیٹ بنایا گیا تھا۔
کیا بینظیر بھٹو اس شادی سے خوش نہیں تھیں؟
اس سوال پر کہ کیا بینظیر بھٹو اس شادی سے خوش نہیں تھیں؟ سعید جان بلوچ کا کہنا تھا کہ جو لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں انہوں نے شاید بینظیر بھٹو کی وہ کتاب نہیں پڑھی جس میں انہوں نے آصف علی زرداری سے پہلی ملاقات کا تذکرہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب یہ لوگ لندن میں تھے بے نظیر بھٹو کی والدہ کا اصرار تھا کہ ان کو اب شادی کر لینی چاہیے کیوں کہ وزارت عظمیٰ کے لیے آئین میں شادی شدہ ہونا بھی شرط تھی۔
بے نظیر بھٹو نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جب ان کی آصف علی زرداری سے پہلی ملاقات ہوئی تو اس وقت کسی شہد کی مکھی نے ان کو کاٹ لیا، تو آصف علی زرداری بہت پریشان ہوئے اور انہیں فوری طور پر اسپتال لے گئے، جس سے انہوں اندازہ لگایا کہ جو شخص ایک چھوٹی سی بات پر میرا اتنا خیال رکھ رہا ہے تو زندگی بھر بھی میرا خیال ضرور رکھے گا۔
شادی کے بعد لیاری میں کیا ماحول رہا؟
سعید جان نے کہا کہ تقریب کے بعد لوگ گھروں کو تو چلے گئے لیکن اس شادی کو کئی ہفتوں تک محسوس کیا گیا، لوگ بے نظیر بھٹو کی شادی کے جوڑے پر گفتگو کرتے رہے کہ انہوں نے کتنا خوبصورت لباس پہنا تھا۔ وہ کتنی خوبصورت لگ رہی تھیں اور شادی کے بعد اب وہ سیاست کیسے کریں گی؟۔
ایک اور دلچسپ بات یہ تھی کہ بینظیر نے یہ شرط عائد کی تھی کہ وہ شادی کے بعد اپنے نام کے ساتھ سے بھٹو کا لفظ نہیں ہٹائیں گی، تو لوگوں میں یہ باتیں بھی ہوتی رہیں کہ کیا اب وہ بینظیر بھٹو کی جگہ بینظیر زرداری کہلائیں گی تاہم اس شادی نے مجموعی طور پر مثبت اثرات مرتب کیے۔
بھٹو خاندان کی کوئی شادی پاکستان میں نہیں ہوئی
سعید جان بلوچ نے بتایا کہ یہ شادی ذوالفقارعلی بھٹو کی بیٹی کی تھی اور بھٹو خاندان کے کسی فرد کی شادی پاکستان میں نہیں ہوئی، بینظیر بھٹو اس خاندان کی واحد فرد تھیں جن کی شادی پاکستان میں ہوئی کیوں کہ بھٹو صاحب کے دونوں بیٹے شاہنواز بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کی شادی پاکستان میں نہیں ہوئی اسی طرح صنم بھٹو کی شادی بھی پاکستان میں نہیں ہوئی یہی وجہ تھی کہ اس شادی میں جوش و ولولہ زیادہ دیکھا گیا۔