چین میں پاکستان کے سب سے طویل عرصے تک سفارت کاری کرنے والے مسعود خالد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور چین کے تعلقات کا ایک اہم حصہ یہ رہا ہے کہ سرمایہ دارانہ اور کمیونسٹ جیسے 2 مختلف بلاکس کا حصہ ہونے کے باوجود دونوں ملکوں نے اپنے تعلقات کی تاریخ میں کبھی بھی ایک دوسرے کی مخالفت میں کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی وجہ سے چین کے ساتھ تعلقات متاثر ہونے کے سوال کے جواب میں سابق سفیر مسعود خالد نے کہا کہ پاکستان کے دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات اپنے پیرائے میں اہمیت کے حامل ہیں۔ سفارتی سطح پر ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ ایک ملک کے ساتھ اچھے تعلقات کی وجہ سے دوسرے ملک کے ساتھ تعلقات خراب ہو جائیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات بہت پرانے ہیں، پاکستان نے ’سیٹو‘ اور ’سینٹو‘ معاہدوں میں شمولیت کے بعد مغربی بلاک کے ساتھ بھی اپنی وابستگی ظاہر کر لی جبکہ چین ایک کمیونسٹ ملک تھا لیکن اس کے باوجود پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات خراب تو کبھی نہیں ہوئے بلکہ ان تعلقات میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔
پاک امریکا تعلقات میں اتار چڑھاؤ رہا جبکہ چین کے ساتھ تعلقات فروغ پاتے گئے
سابق سفیر کا کہنا تھا کہ اس سے قبل پاکستان اور چین کے تعلقات کی نوعیت صرف سیکیورٹی تعاون سے متعلق تھی جبکہ خاص طور پہ ’سی پیک‘منصوبے کے بعد سے اب ان تعلقات میں معاشی پہلو کا بھی اضافہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا اور چین دونوں کے ساتھ ہمارے پرانے تعلقات ہیں اور میرا نہیں خیال کہ ہم دونوں میں سے کسی ایک کو منتخب کر رہے ہیں۔
مسعود خالد نے کہا کہ پاک چین اور پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے جو موازنہ کیا جاتا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاک امریکہ تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے جبکہ پاک چین تعلقات بڑھتے ہی رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیاء کا ایک اہم ملک ہے اور اس کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات بین الاقوامی طاقتوں کے لیے بھی ضروری ہیں اور پاکستان کو بھی تمام ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو ٹھیک رکھنا ہے کیونکہ دنیا کی کوئی بھی سپر پاور ہو اس کے لیے جب جنوبی ایشیاء کی بات ہو گی تو وہ جغرافیائی اہمیت کے باعث پاکستان کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔
سی پیک کی سب سے زیادہ مخالفت بھارت نے کی
سابق سفیر مسعود خالد نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا، چین کے ’روڈ اینڈ بیلٹ‘ منصوبے کا مخالف ہے اور سی پیک چونکہ ’روڈ اینڈ بیلٹ‘منصوبے کا فلیگ شپ پراجیکٹ ہے اس لیے امریکا سمیت کئی ممالک اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا سے ہٹ کر سی پیک کی سب سے زیادہ مخالفت تو بھارت کی جانب سے سامنے آئی ہے، بھارت چونکہ امریکا کا حلیف ہے اور سی پیک کی مخالفت کر رہا ہے تو اس کے اثرات اس منصوبے پر پڑتے ہیں۔جنوبی ایشیاء میں امریکا بھارت اتحاد ہمارے مفادات کے خلاف جاتا ہے۔
افغانستان کی خراب صورتحال سے بھارت فائدہ اٹھا رہا ہے
سابق سفیر مسعود خالد نے افغانستان کی صورت حال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ افغان عبوری حکومت اگر اپنے زیرانتظام علاقے کو کنٹرول نہیں کر پا رہی اور وہاں سے دہشت گرد کاروائیاں ہو رہی ہیں تو بیرونی عوامل اس صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہیں، جیسا کہ بھارت سمجھتا ہے کہ اس کا دشمن فی الحال پاکستان ہی ہے اس لیے وہ افغانستان میں موجود دہشت گرد عناصر کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتا ہے۔
پی ٹی آئی دور حکومت میں سی پیک منصوبوں پر پیش رفت کی رفتار کم ہوئی
سابق سفیر مسعود خالد نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ 2018 میں سی پیک منصوبوں پر کام کی رفتار میں کمی آئی جس کی وجہ سابق دورِ (عمران خان) حکومت کے کچھ وزرا کے بیان تھے جس سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے اور چین بھی مایوسی کا شکار ہوا، لیکن پاکستان ڈیموکریٹک الائنس (پی ڈی ایم ) کی حکومت نے سی پیک کی رفتار کو بڑھایا اور اب جب کوئی نئی سیاسی حکومت آئے گی تو اس کے لیے اہم ہو گا کہ سی پیک کی رفتار کو بڑھائے اور منصوبوں پر کام میں تیزی لائے۔
پاکستان اور چین کا افغانستان کو سی پیک میں شامل کرنے کا فیصلہ
سابق سفیر سے جب پوچھا گیا کہ افغانستان کی صورت حال کس طرح سے سی پیک کو متاثر کرے گی؟تو ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور چین نے فیصلہ کیا ہے کہ افغانستان کو سی پیک میں شامل کیا جائے گا، اس سلسلے میں تینوں فریقوں کے درمیان گفتگو بھی ہوئی ہے اور افغانستان کے مفاد میں ہے کہ وہاں پر منصوبے شروع ہوں اور چین کے پاس ایسے منصوبے شروع کرنے کی صلاحیت اور وسائل بھی موجود ہیں، لیکن اگر افغانستان میں امن و امان کی خراب صورتحال برقرار رہتی ہے تو یہ ان کے اپنے مفاد کے خلاف ہے۔
افغانستان کی موجودہ حکومت پر مکمل اتفاق نہیں
سابق سفیر مسعود خالد نے کہا کہ افغانستان میں امن و امان کی خراب صورتحال میں اندرونی اور بیرونی دونوں عوامل کارفرما ہیں، جب کسی ملک میں داخلی انتشار ہوتا ہے تو بیرونی عناصر اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہیں، پھر افغانستان کی جو موجودہ حکومت ہے اس پر وہاں کے سارے فریق متفق بھی نہیں ہیں۔
تمام علاقائی طاقتیں افغانستان میں امن کی خواہاں ہیں
تمام وسط ایشیائی ممالک، روس اور چین افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں، اگر افغانستان میں امن ہوتا ہے تو وسط ایشیائی ممالک کو افغانستان کے راستے پاکستان اور پھر سمندر تک رسائی مل سکتی ہے، اس وقت ساری دنیا ترقی کر رہی ہے اور علاقائی سطح پر ملکوں کے بلاکس بن رہے ہیں تو خطے کے تمام ممالک کی خواہش ہے کہ افغانستان میں امن کا قیام ہو۔
جاپان اور جنوبی کوریا، امریکی اور چینی دونوں معاشی بلاکس کا حصہ ہیں
سابق سفیر سے پوچھا گیا کہ کیا ماضی کی کمیونسٹ اور کیپٹلسٹ بلاکس کی تقسیم کی طرح دنیا ایک بار پھر بلاکس میں تقسیم ہونے جا رہی ہے تو سابق سفیر کا کہنا تھا کہ اس وقت دنیا میں معاشی مفادات ترجیحات میں شامل ہیں، جس کی واضح مثال یہ ہے کہ جاپان اور جنوبی کوریا، نہ صرف چین کے زیرانتظام ’ریجنل کمپرہینسو اکنامک پارٹنرشپ‘(جامع علاقائی معاشی شراکت داری ) بلاک کا حصہ ہیں بلکہ امریکا کے زیرانتظام ’انڈوپیسفک اکنامک فریم ورک‘ بلاک کا بھی حصہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود کہ جنوبی کوریا اور جاپان میں امریکی فوج موجود ہے۔ اسی طرح سے پاکستان کو امریکا کے ساتھ بھی دوستی برقرار رکھنی ہے، امریکا سے پاکستان کو فوجی تعاون ملتا ہے تو چین سے معاشی تعاون اور اب چین کے ساتھ دفاعی تعاون پر ہمارا انحصار زیادہ ہو گیا ہے۔
روس اور چین معاشی مدقابل سے ’حلیف‘ بن گئے
سابق پاکستانی سفیر مسعود خالد نے کہا کہ روس اور چین کا معاشی مقابلہ چل رہا تھا لیکن پھر دونوں ایک ہو گئے، وسط ایشیاء میں روس کا تاریخی اثر و رسوخ ہے اور اب ’روڈ اینڈ بیلٹ‘ منصوبے کی وجہ سے چین کا اثر بڑھ رہا ہے، اس کے بعد ایران اور مشرق وسطیٰ میں بھی دونوں ملکوں کا اثر بڑھ رہا ہے اور ہمارے خطے میں ہونے والی ان تبدیلیوں کی روشنی میں ہی پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کی تشکیل کرنا ہے۔
جیو اکنامکس کے تناظر میں پاکستان کے لیے بہت سارے معاشی مواقع ہیں
مسعود خالد نے مزید کہا کہ جیو اکنامکس کی روشنی میں پاکستان کی اہمیت بڑھ گئی ہے، چین کے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات ہی کی وجہ سے وسط ایشیائی ممالک پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں، ایران پاکستان کے ساتھ تعلقات مظبوط کرنا چاہتا ہے تو اور ہمیں کیا چاہیے کیوں کہ یہ سب ہمارے لیے معاشی ترقی کے مواقع ہیں۔
تنازع کشمیر پر بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں
سابق سفیر مسعود خالد نے تنازع کشمیر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر پر بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں، یہ فیصلہ مودی حکومت کو صرف سیاسی فائدہ تو دے سکتا ہے لیکن بین الاقوامی سطح پر کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے اور جب تک یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر موجود ہے، بھارت یکطرفہ طور پر کوئی ایسا فیصلہ نہیں کر سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کشمیر کے مسئلے پر جو اجلاس ہوئے وہ چین کی مدد سے ہوئے یہ الگ بات ہے کہ ان اجلاسوں میں ویٹو ہو گیا۔