8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات جوڈیشری کے ذریعے کرانے کے لیے دائر پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر پشاور ہائی کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔
درخواست کی سماعت کے لیے 2 رکنی خصوصی بینچ تشکیل دیا گیا تھا، جس کی سربراہی چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ نے کی۔
تحریک انصاف کو جلسوں کی اجازت تک نہیں دی جارہی، درخواست گزار
درخواست گزار معظم بٹ نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے اور صاف و شفاف بنانا بھی الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ اس وقت صوبے کے گورنر اور نگراں حکومت سب کے خلاف درخواستیں دائر ہوئی ہیں۔
مزید پڑھیں
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی آئی کو جلسوں کو اجازت نہیں دی جارہی، یہاں تک کہ آن لائن جلسہ کرنے کی اجازت بھی نہیں، 700 سے زیادہ تھری ایم پی او کے آرڈر جاری ہوئے ہیں اور لوگوں کو گرفتار کیا جارہا ہے۔
معظم بٹ نے کہاکہ ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز مسلسل پی ٹی آئی کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں، ان کی نگرانی میں شفاف انتخابات ممکن نہیں۔
الیکشن کمیشن نے اے اور بی چھوڑ کر سی آپشن اپنایا، چیف جسٹس
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ الیکشن کمیشن نے پہلے ہی اے اور بی آپشن چھوڑ کر سی آپشن اختیار کیا۔ ’جب عدالتوں سے رائے لی گئی تو بلوچستان ہائیکورٹ نے کہاکہ ہم عملہ دیتے ہیں، پھر کیا ان سے مشاورت کی گئی؟ جس کے جواب میں الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ بلوچستان ہائیکورٹ سے افسران کی لسٹ مانگی تھی پھر انہوں نے انکار کر دیا‘۔
کیا موجودہ حالات مں شفاف الیکشن ممکن ہیں؟ چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خیبرپختونخوا میں 700 سے زیادہ تھری ایم پی او کے آرڈرز جاری کیے گئے۔ پشاور میں 147 بار تھری ایم پی او آرڈر ایشو کیا گیا۔ 24 اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز اس تگ ودو میں بیٹھے رہے کہ ایک پارٹی کے لوگوں کو گرفتار کریں۔ کیا ایسے حالات میں شفاف الیکشن ہوں گے۔
انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ جہاں بار بار ڈپٹی کمشنرز ایم پی او آرڈر جاری کررہے ہیں۔ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ اب تبدیل ہوجائیں گے۔
الکیشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ایک پارٹی بار بار قانون کی خلاف ورزی کررہی ہے جس وجہ سے انتظامیہ تھری ایم پی او کے آرڈر جاری کرتی ہے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ یہ بتا دیں کہ اگر اس پارٹی کا امیدوار کاغذات جمع کرانے کے لیے آتا ہے تو اس کے ساتھ ایسے ہی سلوک کیا جائے گا جیسے دوسری پارٹیوں کے ساتھ ہوگا۔
تھری ایم پی او کا بیک گراؤنڈ 9 مئی واقعات ہیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل
اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل ثنااللہ نے موقف اپنایا کہ تھری ایم پی او کا بیک گراؤنڈ 9 مئی واقعات ہیں۔ جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ 9 مئی تو گزر گیا اب کیا وجوہات ہیں کہ روزانہ تھری ایم پی او کے آرڈر جاری ہوتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے موقف اپنایا کہ سپریم کورٹ کا لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر آرڈر موجود ہے جو کلیئر ہے۔ الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ اس میں انتظامی افسران کی ڈیوٹی لگائی جائے یا جوڈیشل افسران کی، کنٹرول ادارے کے پاس ہی ہوتا ہے۔ عدالت نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔