ریاست یا مرغے والی ناراض بڑھیا

منگل 19 دسمبر 2023
author image

وسعت اللہ خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

حالانکہ یہ جلسہ پاک فوج اور پولیس کے شہیدوں سے معنون کیا گیا۔ حالانکہ لگ بھگ ہر مقرر نے 9 مئی کے واقعات کی مذمت کی۔ پھر بھی تحریکِ انصاف کے پہلے ڈجیٹل جلسے کو دکھانے والے تمام قابلِ ذکر پلیٹ فارمز پر اچانک سے آن لائن ٹریفک کئی گھنٹے کے لیے یا تو تھم گیا یا  کچھوے کی رفتار کے برابر کر دیا گیا۔ رپورٹروں نے اسباب معلوم کرنے کے لیے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)  کے نمبروں پر قسمت آزمائی کی مگر ان نمبروں کو بھی سانپ سونگھ گیا۔

انٹرنیٹ پابندیوں پر نگاہ رکھنے والے ایک بین الاقوامی نیٹ ورک سرف شارک کے مطابق سنہ 2023 کی عالمی رینکنگ میں نیٹ ٹریفک پر پابندی یا رکاوٹ ڈالنے کے اقدامات کی عالمی فہرست میں ایران اور بھارت کے بعد پاکستان ماشااللہ تیسرے نمبر پر ہے۔

 یہ کام عموماً وفاقی وزارتِ داخلہ پی ٹی اے  کے توسط سے کرتی ہے۔ اس وقت سرفراز بگٹی کے استعفے کے بعد وزارتِ داخلہ کی کرسی خالی ہے اور جو وزارتی کرسی خالی ہو جاتی ہے نئی تقرری تک وہ خود بخود وزیرِ اعظم کی تحویل میں آجاتی ہے۔ مگر نگراں وزیرِ اعظم خود کو اس چھیچھا لیدر سے بچانے اور پوری دنیا کو نگراں سیٹ اپ کی افادیت پر قائل کرنے کے لیے اکثر بیرونِ ملک ہوتے ہیں۔ ان کے پیچھے کیا ہوتا ہے پیچھے پڑنے والے جانیں۔

پہلے زمانے میں سیاسی جلسے ناکام بنانے کے لیے جلسہ گاہ میں غنڈے، سانپ یا پانی چھوڑنے کا رواج تھا۔ آج کل یہی کام پی ٹی اے بہت آسانی سے حسب الحکم اپنے کسی بھی کل پرزے کی منڈی مروڑ کے کر دیتی ہے۔

کوئی ٹی وی چینل کوئی ناپسندیدہ انٹرویو یا جلسہ یا پریس کانفرنس نہ دکھائے۔ اس  کام کے لیے پیمرا موجود ہے جس کا زور کیبل آپریٹرز پر چلتا ہے اور کیبل آپریٹرز کو کوئی بھی چینل ریموٹ کنٹرول کے 3 یا 4 نمبر سے ہٹا کے 97 یا 127 پر کرنے میں منٹ بھر لگتا ہے۔ صارف ٹاپتا رھ جاتا ہے کہ ابھی تو چینل 5 نمبر پر تھا اب کہاں گیا۔

آپ لاکھ دہائی دیتے پھریں کہ یہ ہتھکنڈے رابطہ کاری و اطلاعات کی فراہمی کی بنیادی آئینی آزادیوں کی فلاں فلاں شق  کی خلاف ورزی ہیں۔ دیتے رہیں دہائی۔ جہاں آئین کے ہر صفحے کا جہاز بنا کے اڑانے پر کوئی باز پرس نہ ہو وہاں  ان صفحات پر درج شقوں کی کیا اوقات ہے۔

حالانکہ زباں بندی کے ان مسائل سے ہر قابلِ ذکر جماعت کو گزرنا پڑا ہے یا گزرنا پڑ رہا ہے یا گزرنا پڑے گا۔ پھر بھی ان آزادیوں میں رکاوٹ ڈالنے کی بالاِ آئین کوششوں کی یک زبان اجتماعی سیاسی مذمت کم ازکم مجھے تو یاد نہیں کہ کبھی ہوئی ہو۔

ہر جماعت خود پر عائد ایسی پابندیوں کو انتہائی ظلم قرار دیتی ہے۔ کسی اور جماعت پر عائد ہوں تو چپ سادھ لیتی ہے اور دل ہی دل میں خوش ہوتی ہے۔ اقتدار میں آ جائے تو انہی پابندیوں کو قومی سلامتی اور امن و امان کی ضرورت بتاتے ہوئے دھڑلے سے نافذ کرتی ہے۔

اس ملک میں آج جو بھی سائبر قوانین نافذ ہیں وہ کسی اور نے نہیں مسلم لیگ نون اور پی ٹی آئی نے اپنے اپنے ادوار میں قوم کے گلے میں ڈالے اور پھر یہی قوانین ان جماعتوں کے گلے میں آ گئے۔ حالانکہ ان سب کی قیادت کو بھی بچپن سے پڑھایا گیا ہو گا کہ جو دوسرے کے لیے گڑھا کھودتا ہے کبھی نہ کبھی خود بھی اس میں گرتا ہے۔

پر کیا کریں۔ چونکہ پالیسی ساز عوام سے زیادہ ذہین اور چالاک ہوتے ہیں لہذا وہ اپنی ذہانت کے بوجھ تلے کامن سنس کو کچلتے چلے جاتے ہیں۔ حالانکہ فرد ہو یا گروہ اسے آخر میں ذہانت نہیں بلکہ کامن سنس بچاتی ہے۔ یقین نہ آئے تو بچپن میں سنی ہوئی لومڑی اور کوے اور کچھوے اور خرگوش کی کہانی ایک بار پھر پڑھ لیں۔

ایسے ہی ایک ذہین حکمران ضیا الحق بھی گذرے ہیں۔ انہیں کسی نے مشورہ دیا کہ اگر کسی جماعت کا انتخابی نشان بدل دیا جائے اور انتخابی نظام کو غیر جماعتی قرار دے دیا جائے تو راستے کے کانٹے صاف ہوتے چلے جائیں گے۔ چنانچہ آپ کو یہ تجویز بھا گئی اور آپ نے آزمائشی بنیادوں پر سب سے پہلے غیر جماعتی بلدیاتی انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا۔ ہزاروں امیدوار میدان میں آ گئے اور ہر امیدوار کو الگ الگ انتخابی نشان الاٹ ہوا۔

معتوب پیپلز پارٹی نے اس کا توڑ یوں نکالا کہ اپنے ہم خیال امیدواروں کو عوام دوست کا ٹائٹل دے دیا۔ لوگ فوراً سمجھ گئے کہ جس امیدوار کے اشتہار میں نام کے آگے عوام دوست لکھا ہو بھلے اس کا انتخابی نشان تلوار کے بجائے لوٹا ہی کیوں نہ ہو مگر ووٹ اسے ہی دینا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پنجاب اور سندھ میں ’عوام دوست‘ امیدوار بڑی تعداد میں جیت گئے۔ حالانکہ اس دور میں سوشل میڈیا کا شین بھی نہیں تھا۔

جب سنہ 1988 میں جماعتی بنیادوں پر انتخابات کا نظام بحال ہوا تب بھی پیپلز پارٹی کو تلوار کے بدلے تیر پکڑا دیا گیا۔ مگر پیپلز پارٹی تب بھی سب سے بڑی جماعت بن کے ابھری۔ فزکس کا بنیادی اصول ہے کہ جب آپ کسی گیند کو جتنی قوت سے زمین یا دیوار سے ٹکراتے ہیں وہ اتنی ہی قوت سے پھینکنے والے کی طرف لوٹتی ہے۔

آج پھر وہی پٹا پٹایا  فارمولا ذرا صفائی سے آزمانے کی کوشش ہو رہی ہے۔

آخر ریاست چلانے والے کب اس ناراض بڑھیا کے نقشِ قدم پر چلنا ترک کریں گے جو آدھی رات کو اپنا مرغا بغل میں دابے یہ بڑبڑاتے ہوئے گاؤں چھوڑ گئی کہ نہ میرا مرغا بانگ دے گا نہ گاؤں میں صبح ہو گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسعت اللہ خان معروف پاکستانی صحافی، کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp