کراچی کی نوآبادیاتی دور کی جیل کی دیواروں پر بنے نقش و نگار پاکستان کی دیہی زندگی کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ کسی آرٹسٹ یا پینٹر کا نہیں بلکہ اس جیل کے اسیران کا کارنامہ ہے جو خود تو دنیا کی رنگینیوں سے دور ہیں مگر اس جیل کی دیواروں پر زندگی کے رنگ بھر رہے ہیں۔
غیرملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق قتل اور اغوا جیسے جرائم میں سزا یافتہ ان قیدیوں نے سینٹرل جیل کراچی کی دیواروں کے اندر رہتے ہوئے یہ ہنر سیکھا ہے۔
جیل حکام کا کہنا ہے کہ قیدیوں کی اصلاح کے لیے شروع کیے گئے فن اور موسیقی کے پروگرام کے تحت یہاں کے کچھ قیدی مقامی آرٹس کونسل کے تعاون سے نمائشوں میں اپنی پینٹنگز کئی ہزار ڈالر میں فروخت کرچکے ہیں۔
’جیل میں سیکھا کہ زندگی رنگوں سے بھری ہے‘
42 سالہ محمد اعجاز بھی ایک ایسے ہی قیدی ہیں جنہوں نے جیل میں یہ ہنر سیکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جیل جانے سے پہلے وہ ایک ایسی زندگی بسر کر رہے تھے جس میں ذمہ داری اور پختگی کا عنصر شامل نہ تھا۔
محمد اعجاز کہتے ہیں: ’میں نے جیل میں آنے کے بعد زندگی کا حقیقی معنی تلاش کر لیا ہے۔ یہاں میں نے سیکھا ہے کہ زندگی رنگوں سے بھری ہے اور یہ رنگ بولتے ہیں۔‘
اغوا برائے تاوان کے جرم میں قید اعجاز نے اپنی سزا کے بارے میں بات کرنے سے اجتناب برتتے ہوئے بتایا کہ انہیں 25 سال کی سزا ہوئی تھی اور وہ اپنی آدھی سزا کاٹ چکے ہیں۔
اعجاز نے جیل میں قید ہونے کے باوجود گھوڑوں کی پینٹنگز بنا کر اچھی خاصی رقم کمائی ہے۔ رواں برس سینٹرل جیل کے قیدیوں کی پینٹنگز کی فروخت کی تقریب ہوئی تھی، 3 روزہ اس نمائش میں محمد اعجاز کی 23 پینٹنگز اور کچھ فن پارے فروخت ہوئے تھے۔
’پینٹنگز فروخت کرکے ماں کو عمرہ اور بہن کو شادی کے لیے پیسے دیے‘
انہوں نے اپنی پینٹنگز کی فروخت سے 13 لاکھ روپے کمائے تھے جس میں سے 10 لاکھ روپے انہوں نے اپنی والدہ کو عمرہ ادائیگی کے لیے اور 3 لاکھ روپے بہن کو شادی کے لیے دیدیے۔ اس نمائش میں 35 سے زیادہ قیدیوں کے 200 سے زائد فن پارے رکھے گئے تھے۔
محمد اعجاز نے بتایا: ’شروع میں، میرے خاندان کو مجھ پر یقین نہیں آیا کہ میں ایک آرٹسٹ بن گیا ہوں مگر جب انہوں نے مجھے نمائش میں دیکھا تو وہ بہت خوش ہوئے۔‘
مزید پڑھیں
محمد اعجاز اب سینٹرل جیل کے دوسرے قیدیوں کو یہ ہنر سکھا رہے ہیں۔ فن اور آرٹ کا یہ پروگرام 2007ء میں کراچی سینٹرل جیل میں شروع کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد طویل سزا کاٹنے والے قیدیوں یا سزائے موت کے قیدیوں کی اصلاح کرنا ہے۔
اس پروگرام کے تحت قیدی عربی، انگریزی اور چینی زبانیں سیکھنے کے علاوہ دستی کڑھائی اور موتیوں کا کام کرنا بھی سیکھ سکتے ہیں۔
’اصلاحی پروگراموں سے قیدیوں کو اپنے ماضی پر غور کرنے میں مدد ملتی ہے‘
سینٹرل جیل کے سینیئر افسر عماد چانڈیو نے اس حوالے سے کہا کہ قیدیوں کو تعمیری کاموں میں مشغول کرنے سے ان کی اصلاح ہوتی ہے اور ان کی تعمیری صلاحیتیں نکھر کر سامنے آتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسے پروگراموں کی مدد سے ان قیدیوں کو اپنے ماضی پر غور کرنے میں مدد ملتی ہے اور وہ سوچ پاتے ہیں کہ وہ جس پاداش میں یہاں سزا کاٹ رہے ہیں وہ آخر کون سا جرم، گناہ یا قانون کی خلاف ورزی تھی۔
عماد چانڈیو کا کہنا تھا کہ جیل میں اصلاحی پروگرام کے تحت بنائے گئے تخلیقی فن پارے قیدیوں کی ملکیت ہوتے ہیں جن کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم بھی ان قیدیوں کو ہی ملتی ہے۔
’جب پینٹنگ مکمل کرتا ہوں تو خوشی ہوتی ہے‘
مہتاب ذاکر بھی ایک ایسے ہی قیدی ہیں جنہیں 5 سال قبل قتل کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔ مہتاب کا خاندان کا مالی طور پر انحصار اب بھی انہی پر ہے۔
34 سالہ مہتاب کا کہنا ہے، ’میں جانتا ہوں کہ میں نے یہاں وقت ضائع نہیں کیا بلکہ کچھ نہ کچھ سیکھا ہے، جب میں پینٹنگ مکمل کرتا ہوں تو مجھے خوشی ہوتی ہے اور اس سے مجھے یہ اعتماد ملتا ہے کہ کم از کم میں کچھ کر سکتا ہوں۔‘
جسٹس پروجیکٹ پاکستان کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سارہ بلال نے اس حوالے سے کہا کہ سزاؤں کا مقصد قیدیوں کو بہتر شہری بننے میں مدد دینا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان قیدیوں کی اصلاح کی کوششیں کو ترجیح بھی دی جانی چاہیے۔
واضح رہے کہ پاکستان بھر کی جیلوں گنجائش سے زیادہ قیدی موجود ہیں جس کے باعث ان جیلوں کو پانی، صفائی اور خوراک کی کمی جیسے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ تاہم بڑے شہروں کی سینٹرل جیلوں کو دیگر جیلوں کی نسبت زیادہ فنڈز ملتے ہیں۔