مولانا فضل الرحمان افغانستان کا دورہ کریں گے، کیا اس سے پاکستان کو فائدہ ہوگا؟

بدھ 20 دسمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان عام انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد پہلی فرصت میں کابل کا دورہ کریں گے۔

مولانا فضل الرحمان کے دورے کے حوالے سے بتاتے ہوئے جے یوآئی کے ترجمان محمد اسلم غوری نے وی نیوز کو بتایا کہ دورے کو حتمی شکل دی جا رہی ہے جبکہ پارٹی سربراہ فی الوقت الیکشن کے حوالے ٹکٹوں کی تقسیم اور پارٹی امور میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ‘حتمی تاریخ کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا ہے تاہم الیکشن کے لیے کاغذات جمع کرانے کے فوراً بعد وہ کابل روانہ ہوجائیں گے‘۔

مولانا فضل الرحمان کے دورہ افغانستان کا مقصد کیا ہے؟

اسلم غوری نے کابل دورے کے حوالے سے بتایا کہ فضل الرحمان طالبان حکومت کی دعوت پر افغانستان جا رہے ہیں اور اس میں کوئی سرکاری وفد شامل نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ‘دورے کے دوران مختلف رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوں گی تاہم اس کا مقصد کسی معاملے پر کوئی مذاکرات کرنا نہیں ہے‘۔ تاہم انہوں نے بتایا کہ اس دوران مولانا فضل الرحمان کچھ رہنماؤں سے بند کمروں میں ملاقات بھی کریں گے۔

اسلم غوری نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمان رہنماؤں سے سیکیورٹی سمیت پاک افغان ایشوز پر بھی بات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ بیشتر افغان طالبان رہنما پاکستان کے مدراس میں زیر تعلیم رہے ہیں اور مولانا فضل الرحمان کو قدر کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کی بات کو اہمیت دیتے ہیں۔

کیا مولانا پاکستان میں دہشتگردی اور کالعدم ٹی ٹی پی کے معاملے پر کوئی مؤثر کردار ادا کرسکیں گے؟

سنہ 2022 کے اواخر میں کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ جنگ بندی کے بعد پاکستان میں ایک بار پھر دہشتگردی کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور کالعدم ٹی ٹی پی نے ذمہ داریاں بھی قبول کیں لیکن رواں سال کے آغاز میں پشاور کے ہائی سکے وراتی زون میں واقع پولیس لائن کے اندر مسجد میں خودکش حملے سے تشویش بڑھ گئی اور اس وقت کے وزیر خارجہ خواجہ آصف کی قیادت میں خصوصی وفد کابل پہنچ گیا جس میں انٹیلیجنس چیف ندیم انجم بھی شامل تھے۔ وفد نے افغان طالبان سے پاکستان میں دہشتگرد کارروائیوں کے حوالے سے بات چیت کی۔

پاکستانی وفد کے دورے کے باوجود پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیاں ختم نہیں ہوئی البتہ اس کے بعد یہ ضرور ہوا کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے ذمہ داری قبول کرنے کا سلسلہ بند کردیا اور اس قسم کے اعلانات کا کام پھر تحریک جہاد پاکستان (ٹی جے پی ) نامی ایک نئی تنظم نے سنبھال لیا۔

ٹی جے پی اب تک بلوچستان، پنچاب اور کے پی میں متعدد دہشتگرد حملوں کی ذمہ داری قبول کرچکی ہے۔ ان حملوں میں رواں ماہ ڈی آئی خان میں فوجی کمپاؤنڈ پر ہوا حملہ بھی شامل ہے۔

تحریک جہاد پاکستان اور ٹی ٹی پی ایک ہی سکے کے دو رخ

سیکیورٹی تجزیہ کار ٹی جے پی کو ٹی ٹی پی کی نئی حکمت علمی قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق ٹی ٹی پی بھی سیکیورٹی اداروں کو نشانہ بناتی تھی جبکہ ٹی جے پی کا بھی یہی بیانیہ ہے۔

طالبان اور افغان امور کے ماہر سینیئر صحافی رفعت اللہ اورکزئی کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی اور ٹی جے پی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور دونوں دراصل ایک ہی ہیں بس ایک فرضی نام ٹی جے پی گھڑ لیا گیا ہے۔

رفعت اللہ اورکزئی نے بتایا کہ طالبان ماضی میں الگ نام استعمال کرتے آئے ہیں جو ان کی وقت کے ساتھ نئی حکمت عملی کا حصہ ہے اور موجود حالات میں بھی افغان طالبان حکومت پر دباؤ کے باعث ٹی ٹی پی جگہ ٹی جے پی ذمہ داریاں قبول کر رہی ہے۔

سقوط کابل کے وقت افغانستان جا کر رپورٹنگ کرنے والے پشاور کے سینئیر صحافی عارف حیات کا کہنا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ اب مولانا فضل الرحمان کا افغان طالبان پر کوئی زیادہ اثر روسوخ باقی رہا ہے۔

کیا مولانا ٹی ٹی پی کو نکیل ڈالنے کے لیے افغان حکومت کو منالیں گے؟

عارف حیات نے کہا کہ ٹی ٹی پی اب اپنی لابی بنائی بیٹھی ہے اور وہ اپنہ شرائط پر ذمہ دار شخصیت سے بات کرے گی تاہم مولانا فضل الرحمان پل کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’افغان طالبان اور مولانا کے درمیان مذہبی ہم آہنگی ہے اور زیادہ تر طالبان ان کے مدراس میں رہے ہیں لیکن ٹی ٹی پی شرائط پر ہی بات کرے گی‘۔

انہوں نے کہا کہ مولانا افغان حکومت اور پاکستان کے درمیان فاصلوں کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن افغان طالبان کے ذریعے ٹی ٹی پی کو مذاکرات کی میز پر لانا ایک مشکل ٹاسک ہوگا۔

عارف حیات کا خیال ہے کہ مولانا فضل الرحمان افغان طالبان کے ذریعے ٹی ٹی پی کو پیغام دیں گے  اور ان کو مذاکرات کی میز پر لانے پر زور دیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ افغان طالبان پریشر ڈال سکتے ہیں لیکن ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈی آئی خان میں حملے کے بعد پاکستان نے افغان طالبان کو واضح پیغام دیا ہے اور مولانا کا دورہ بھی اسی کی ایک کڑی ہے۔

کیا تمام طالبان رہنما مولانا کی بات کو اہمیت دیتے ہیں؟

سینیئر صحافی و تجزیہ کار محمود جان بابر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کے دورہ افغانستان کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ سارے طالبان مولانا کے حامی نہیں ہیں کچھ طالبان انہیں پاکستان کا بہت بڑا عالم سمجھتے ہیں جبکہ ان کی مخالف رائے رکھنے والوں کا خیال ہے کہ وہ جمہوریت پسند ہیں۔

محمود جان بابر نے کہا کہ مولانا کے بارے میں ایک تاثر یہ بھی کہ وہ بائیں بازو کے ہیں جس کا فائدہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مولانا کا دورہ زیادہ اہمیت کا حامل ہو گا اور ان کی بات میں وزن ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ’جب تک ریاست مولانا کو اختیار نہ دے دورہ کچھ زیادہ سودمند ثابت نہیں ہوگا‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp