65 برس کی عمر میں اسکول میں داخلہ لینے والے لوئر دیر کے دلاور خان

ہفتہ 23 دسمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

لوئر دیر کے 65 سالہ دلاور خان بابا نے اسکول میں پڑھائی شروع کرکے یہ ثابت کردیا کہ زیورتعلیم سے آراستہ ہونے کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ ان کے حصول علم کی یہ شاندار کوشش دوسروں کے لیے بھی مشعل راہ بن گئی ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا کے شمال مغرب میں واقع ضلع لوئر دیر کے علاقے خونگی پائین دلاور خان 65 برسوں سے ان پڑھ تھے۔ وہ پیشے کے لحاظ محنت مزدوری سے وابستہ ہیں اور اپنے خاندان کی کفالت کے لیے محنت مزدوری سے پورا کرنے کے ساتھ دعوت تبلیغ کا کام  بھی کرتے ہیں۔

یہ کہانی تیمرگرہ سٹی سے مشرق کے جانب ایک کلومیٹر کے فاصلے پر علاقہ خونگی کے ایک سرکاری پرائمری سکول میں کم سن طالب علم لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان بیٹھے 65 سالہ طالب علم دلاور خان کی کہانی کی ہے جنہیں تعلیم سے محرومی کے پچھتاوے نے پڑھائی پرمجبور کردیا۔

دلاور خان بابا نے وی نیوز سے گفتگوکرتے ہوئے بتایا کہ میرا پیدائشی آبائی گاؤں کامبٹ تحصیل ثمر باغ جندول ہے جبکہ گزشتہ کئی سالوں سے میں تیمرگرہ کے علاقے خونگی میں اپنے خاندان کے ساتھ مستقل رہائش پذیر ہوں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان کے 3 بیٹے اور کئی نواسے نواسیاں ہیں جو ان سے  الگ رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں غربت کے باعث محنت مزدوری  کررہا ہوں اور جب بھی وقت ملتا ہے تو دین کی تبلیغ کا فریضہ انجام دیتا ہوں۔

دلاور خان کے مطابق وہ تبلیغ کے سلسلے میں پنجاب گئے ہوئے تھے دوسرے تبلیغی افراد احادیث و فضائل اعمال بیان کرتے تھے لیکن وہ تعلیم نہ ہونے کے باعث ایسا نہیں کرسکتے تھےجس کا انہیں شدید احساس تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اسی دن تہیہ کرلیا کہ واپس گھر جاکر اسکول میں پڑھائی کے لیے داخلہ لوں گا لہٰذا میں اساتذہ کے ساتھ مشاورت کے بعدا سکول میں داخل ہوگیا اور اب پچھلے 18 مہینوں سے گورنمنٹ پرائمری اسکول خونگی میں پڑھتا ہوں۔

دلاور خان کا کہنا ہے کہ جب میں اسکول پہنچ جاتا ہوں تو میرے نواسے نواسیوں کی عمر کے طالب علم ساتھی کلاس میں احتراماً کھڑے ہو کر مجھے سلام کرتے اور بہت عزت دیتے ہیں اور مجھے اپنے درمیان پاکر بہت خوش ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب میں اس قابل بن چکا ہوں کہ ابتدائی انگلش و اردو الفاظ لکھ پڑھ لوں اور مختصر خط وکتابت کرلوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’اللہ کے فضل سے میری وہ خواہش اور وہ خواب اب پورا ہوگیا کہ میں بھی احادیث دوسروں کو پڑھ کر سنا سکوں۔

دلاور خان کا کہنا تھا کہ اساتذہ کرام مجھے بہت محبت اور پیار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسکول باقاعدگی سے آیا کریں لیکن کبھی کبھار کام یا بیماری کی صورت میں سکول سے مجبورآ چھٹی کرتا ہوں ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میرے دل میں بھی اپنے اساتذہ کرام کے لیے بے حد احترام ہے کیوں کہ میں ان سے سیکھتا ہوں۔

انہوں نے بتایا کہ  میرے بچے اس عمر میں میرے حصول تعلیم سے خوش بھی نہیں تھے اور کہا کرتے تھے کہ اس عمر میں اسکول جانا ٹھیک نہیں لیکن میرا شوق تھا اور میں نے پڑھائی کی لیکن بچے، نواسے اور نواسیاں پہلے ہی اسکول آنے جانے سے خوش نہیں تھے اور جب میری تصاویر میڈیا اور سوشل میڈیا میں انا شروع ہوئیں تو وہ کہتے تھے یہ ٹھیک نہیں ہے لیکن اس عمر میں مجھے تعلیم کی وجہ سے شہرت اور عزت بھی ملی۔

خونگی اسکول ہیڈ ٹیچر

گورنمنٹ پرائمری اسکول کے ہیڈ ٹیچرمحمد نثار نے وی نیوز کو بتایا کہ دلاور خان تبلیغ میں گئے ہوئے تھے تو انہوں نے محسوس کیا کہ تعلیم بہت ضروری ہے اور وہاں سے ارادہ کیا کہ واپس جاکر اسکول میں داخلہ لوں گا اور جب میرے پاس آئے تو میں نے دیگر استاتذہ کی مشاورت سے انہیں اسکول میں داخل کرلیا۔

محمد ںثار کے بقول دلاور خان کا جو ٹارگٹ اور پڑھائی کی خواہش تھی اب 18 مہینوں میں پوری ہوگئی ہے اور اب وہ ضروری چیزیں لکھ اور پڑھ بھی سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ  اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر کوئی ہمت کرے تو تعلیم کے لیے عمر کی کوئی قید اور پابندی نہیں ہوتی اور ہر انسان کسی بھی عمر میں تعلیم حاصل کرسکتا ہے۔

اسکول ہیڈ ٹیچر کا کہنا تھا کہ دلاورخان کے اس عمر میں پڑھائی سے ہمارے اسکول اورعلاقے کے دیگر لوگوں اور بچوں کو بھی فائدہ ہوا اور اس سے وہ بچے جو اسکول سے باہر تھے وہ اور ان کے والدین بھی متاثر ہوئے اور اسکول میں اپنے بچوں کو داخل کراویا۔ ان کا کہنا تھا کہ حتیٰ کہ پرائیویٹ اسکولوں سے بھی بچے ہمارے سرکاری اسکول میں آکر داخل ہوئے جو ایک مثبت تبدیلی ہے۔

دلاور خان کا کلاس فیلو

دلاور خان بابا کے کلاس میٹ طالب علم بچہ انصارعلی کا کہنا ہے کہ بابا کے اسکول آنے سے ہم بہت خوش ہیں اور وہ روزانہ سکول آتے ہیں اور جب کلاس میں ہمیں یا دلاور بابا کو پڑھائی میں مشکل پیش آتی ہے تو ہم ایک دوسرے کی مدد لے لیتے ہیں لیکن جب وہ اسکول نہیں اتے ہیں تو ہمیں فکر ہوتی ہے پھر ہم ان کے گھر پوچھنے جاتے ہیں کہ کہیں وہ بیمار تو نہیں ہیں۔
انصار علی نے کہا کہ دلاور خان ہمیں بھی بہت عزت و پیار دیتے ہیں اور ساتھی طالعلم بچے بھی ان کے ساتھ بہت عزت و احترام کے ساتھ پیش آتے ہیں اور ان کے اسکول انے اور اس عمر میں پڑھائی  سے ہمیں حوصلہ ملتا ہے۔ انصار علی کا کہنا ہے کہ جب اسکول سے چھٹی ہوتی ہے تو وہ ہمارے ساتھ لائن میں اسکول سے گھر چلے جاتے ہیں۔

اہل علاقہ خونگی لوئردیر

اہلیان خونگی لوئر دیر نے دلاور خان کے عمر کے اس حصے میں تعلیم کا شوق پورا کرنے کو مثبت اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے ان افراد اور بچوں میں ایک نیا ولولہ اور جذبہ پیدا ہوگیا ہے کہ اگر دلاور خان کو اس عمر میں تعلیم کی اہمیت کا علم ہوا اور اب پڑھائی کے لیے سکول میں داخل ہوا ہے تو یہ ایک اچھی کوشش اور نیک شگون ہے۔

وائس چیئرپرسن ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان خیبر پختونخوا

ایچ آر سی پی کے پی کے وائس چیر پرسن اکبر خان کہتے ہیں کہ تعلیم کا حصول ہر ایک مرد و خواتین کا بنیادی حق ہے اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ہر بچہ زیور تعلیم سے اراستہ ہوسکے لیکن اداروں کی لاپرواہی اور لوگوں کی مجبوریوں کے باعث جو لوگ تعلیم حاصل نہ کر پائے انہیں زندگی میں اس کا احساس کسی نہ کسی صورت ضرور ہوتا ہے۔

اکبر خان کا کہنا ہے کہ میرا تعلق بھی تیمرگرہ شہر سے ہے اور جب میں نے بھی سنا ہے کہ خونگی کےعمر رسیدہ شخص دلاور خان نے 65 سال کی عمر میں پڑھائی کے لیے اسکول جانا شروع کردیا ہے تو مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس اقدام کو سراہتے ہیں اور ان والدین کو پیغام دیتے ہیں جو اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلواسکے اور اسکولوں میں بھیجنے کے بجائے ان سے محنت مزدوری پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ دلاور خان سے سبق حاصل کریں۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ اس دور جدید میں بھی بہت سے لوگ اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کے بجائے ان سے کام کروانے پر مجبور ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دلاور خان  ہمارے لیے ایک زندہ مثال بن چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بعد کے پچھتاوے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے بچوں کو تعلیم کے ذریعے معاشرے کا ایک اہم حصہ بنائیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp